جب حکومت تعلیم کو کاروبار سمجھنے لگے، تو غریب کا بچہ نصاب سے نہیں، نظام سے باہر ہو جاتا ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور استحکام کا بنیادی ذریعہ ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں کروڑوں بچے اسکول سے باہر ہیں، وہاں تعلیم کے ہر چھوٹے سے چھوٹے پروگرام کی اہمیت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ ان میں سے ایک اہم منصوبہ “انصاف آفٹر نون سکولز” تھا، جو نہ صرف حکومت پنجاب کا ایک منفرد تعلیمی اقدام تھا بلکہ ان ہزاروں بچوں کے لیے امید کی کرن بھی تھا جو دن کے وقت کام کاج یا دیگر وجوہات کی بنا پر رسمی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن حالیہ دنوں میں اس پروگرام کی اچانک بندش نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، اور اس کے پیچھے کارفرما نیت پر سنجیدہ شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔
یہ بندش محض ایک تعلیمی منصوبے کا خاتمہ نہیں، بلکہ ایک منظم پالیسی کی کڑی ہے جو تعلیم کو سرکاری دائرہ اختیار سے نکال کر نجی اداروں، این جی اوز، اور کاروباری طبقات کے حوالے کرنے کی طرف لے جا رہی ہے۔ بظاہر حکومتی سطح پر اس فیصلے کو بہتر تعلیمی انتظامات کے لیے ایک قدم قرار دیا گیا ہے، لیکن اصل میں یہ اقدام تعلیم کو مارکیٹ کا حصہ بنانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کے دور رس اثرات عام عوام، خاص طور پر نچلے طبقے پر پڑیں گے۔
انصاف آفٹر نون سکولز کی بندش اس وقت کی گئی جب تعلیمی سال جاری تھا۔ یعنی بچوں کے داخلے مکمل ہو چکے تھے، کتابیں تقسیم ہو چکی تھیں، اور تعلیمی سرگرمیاں شروع ہو چکی تھیں۔ ایسے وقت میں یہ فیصلہ دراصل ان بچوں کو زبردستی ایسی جگہوں پر منتقل کرنے کی کوشش ہے جہاں تعلیم اب صرف “خدمت” نہیں بلکہ “مصنوعہ” کے طور پر پیش کی جا رہی ہے۔
حکومت نے حالیہ برسوں میں متعدد سرکاری سکولز کو پرائیویٹ اداروں یا پارٹنر تنظیموں کے حوالے کیا ہے۔ ان اداروں کو نئی عمارتیں دی گئیں، ان کی سطح کو ایلیمنٹری درجہ دیا گیا، اور فیسوں میں بھی اضافہ کیا گیا۔ اب جبکہ انصاف آفٹر نون سکولز بند ہو چکے ہیں، انہی نجی اداروں میں بچوں کو بھیجنے کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ اس پالیسی سے چند بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے۔
پہلا اور سب سے واضح اثر یہ ہے کہ اب ہزاروں کی تعداد میں وہ بچے جو پہلے کم یا بغیر کسی لاگت کے تعلیم حاصل کر رہے تھے، وہ یا تو تعلیم سے مکمل طور پر باہر ہو جائیں گے یا پرائیویٹ اداروں میں مہنگی تعلیم لینے پر مجبور ہوں گے۔ اس تبدیلی سے ان بچوں کے خاندانوں پر مالی بوجھ میں اضافہ ہو گا، جو پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا شکار ہیں۔
دوسرا اثر سرکاری تعلیمی اداروں پر پڑے گا۔ جب سرکاری سکولوں میں طلبہ کی تعداد کم ہو گی، تو حکومت اسے ناکامی کا جواز بنا کر مزید سکول بند کر دے گی یا نجی اداروں کو دے دے گی۔ یوں یہ ایک ایسا دائرہ بنتا جا رہا ہے جس میں سرکاری تعلیم کو منصوبہ بندی کے تحت ختم کیا جا رہا ہے تاکہ نجی شعبے کو فروغ ملے۔ یہ ایک خاموش مگر شدید نقصان دہ پالیسی ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تعلیمی ڈھانچے کو کمزور اور ناقابل اعتبار بنا دے گی۔
تیسرا اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ تعلیم کو ریاست کی بنیادی ذمہ داری نہیں سمجھا جا رہا۔ جب ریاست خود تعلیم جیسے حساس شعبے سے پیچھے ہٹ جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تعلیم کا معیار، رسائی اور برابری ختم ہو جاتی ہے۔ تعلیم کا مقصد صرف لکھنا پڑھنا سکھانا نہیں، بلکہ ایک نسل کی تربیت، اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بیدار کرنا اور اسے معاشرتی، اخلاقی اور معاشی طور پر خود کفیل بنانا ہے۔ لیکن جب تعلیم نجی شعبے کے ہاتھوں میں چلی جائے گی تو وہ صرف نفع و نقصان کو دیکھے گا، قوم سازی کو نہیں۔
یہ عمل نئی نسل میں عدم مساوات کو مزید بڑھا دے گا۔ ایک جانب وہ بچے ہوں گے جن کے والدین بھاری فیسیں ادا کر کے نجی سکولوں میں تعلیم دلوا سکیں گے، جبکہ دوسری طرف وہ بچے ہوں گے جو یا تو تعلیم سے محروم رہ جائیں گے یا ایسے اداروں میں تعلیم حاصل کریں گے جہاں صرف حاضری پوری کرنا ہی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ یہ فرق وقت کے ساتھ ایک بہت بڑی معاشرتی خلیج پیدا کرے گا جو مستقبل میں بدامنی، بےروزگاری، اور محرومی کو جنم دے سکتی ہے۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ترقی یافتہ اقوام نے تعلیم کو ہمیشہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری سمجھا ہے۔ جرمنی، فن لینڈ، جاپان اور دیگر کئی ممالک میں تعلیم مکمل طور پر مفت اور ریاست کے زیر انتظام ہے۔ ان ممالک میں تعلیم کو سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے، خرچ نہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے تعلیم کو کبھی ترجیح نہیں دی گئی۔ اور جب سے اس پر نجی شعبے کا اثر بڑھا ہے، تعلیم ایک کاروبار میں بدل گئی ہے۔
بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اکثر والدین، خاص طور پر کم تعلیم یافتہ یا دیہی علاقوں کے لوگ، ان پالیسیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ صرف اس وقت بولتے ہیں جب ان کے بچوں کے اسکول بند کر دیے جاتے ہیں، یا ان سے فیس مانگی جاتی ہے۔ حکومت بھی اسی لاعلمی کا فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کر رہی ہے۔
اگر حکومت واقعی تعلیم کے لیے سنجیدہ ہے، تو اسے سرکاری تعلیمی اداروں کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ انصاف آفٹر نون سکولز جیسے پروگراموں کو بند کرنے کے بجائے ان کی بہتری کی طرف قدم اٹھانا چاہیے تھا۔ ان اداروں میں اساتذہ کو تربیت، وسائل اور سہولیات فراہم کر کے انہیں مزید مؤثر بنایا جا سکتا تھا۔ لیکن حکومت نے آسان راستہ چنا — پرائیویٹ مافیا کے آگے جھک جانا۔
یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ تعلیم کو محض اخراجات کم کرنے یا بجٹ بچانے کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ دراصل ایک قوم کے مستقبل کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ اگر آج ہم نے تعلیم کو سرمایہ دار طبقے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو کل ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے معیاری، منصفانہ اور سستی تعلیم ایک خواب کی صورت میں دکھائی دے گی۔
اب وقت آ چکا ہے کہ عوام، اساتذہ، طلبہ اور سول سوسائٹی مل کر اس رجحان کے خلاف آواز بلند کریں۔ کیونکہ اگر آج خاموشی اختیار کی گئی تو کل ہمیں تعلیم کے نام پر صرف “پیکیج” اور “برانڈز” ملیں گے، علم نہیں۔