غزہ ایک بار پھر آگ میں جھلس رہا ہے، اسرائیلی حملے تیزی سے شدت اختیار کر گئے – دنیا خاموش تماشائی۔

سرائیلی جارحیت کا نیا مرحلہ – غزہ میں زمینی اور فضائی حملے شدت اختیار کر گئے
غزہ پر اسرائیل کی تازہ کارروائیاں ایک مکمل عسکری جارحیت کا روپ اختیار کر چکی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے اسرائیلی فضائیہ، ٹینکوں، ڈرونز اور زمینی فوج کی مدد سے غزہ سٹی کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ حملے خاص طور پر شمالی غزہ، غزہ سٹی اور خان یونس میں شدید ہیں۔
اسرائیلی فوج نے اس آپریشن کو “گہری زمینی کارروائی” (Deep Ground Offensive) قرار دیا ہے، جس کا مقصد ان کے بقول حماس کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ ان حملوں کی زد میں زیادہ تر عام شہری، خواتین، بچے، اسپتال، اسکول اور رہائشی عمارتیں آ رہی ہیں۔
انسانی بحران – زندگی کی سانسیں رکنے لگی ہیں
معصوم جانیں، تباہ حال بستیاں
حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ بچوں، خواتین اور بزرگوں کی بڑی تعداد ان حملوں میں متاثر ہوئی ہے۔ کئی عمارتیں مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، اور متاثرہ علاقوں میں زندہ بچ جانے والے افراد بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔
صحت کا نظام مفلوج
اسپتالوں میں شدید کمی کا سامنا ہے۔ طبی عملہ انتہائی دباؤ میں ہے، دوائیں ختم ہو چکی ہیں، بجلی کی عدم دستیابی کے باعث وینٹی لیٹر اور آپریشن تھیٹر کام نہیں کر رہے۔ ایمبولینسیں تباہ، ڈاکٹر زخمی، مریض سڑکوں پر پڑے ہیں۔
خوراک و پانی کی قلت
خوراک، پینے کے پانی، ایندھن اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کا مکمل محاصرہ کیا گیا ہے، جس کے تحت کوئی امداد یا سامان زندگی اندر داخل نہیں ہو پا رہا۔
بین الاقوامی ردعمل – مذمت کے سوا کچھ نہیں
عالمی طاقتیں خاموش یا یکطرفہ
امریکہ اور یورپی ممالک نے اسرائیل کی “دفاعی کارروائی” کی حمایت کی ہے، جب کہ چند ممالک نے صرف “تشویش” کا اظہار کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ہلکی پھلکی مذمت کر کے پیچھے ہٹ گئی ہیں۔
پاکستان کی آواز
پاکستان نے اسرائیل کی جارحیت کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ:
“اسرائیل کا یہ ظلم و ستم ناقابلِ برداشت ہے۔ عالمی برادری فلسطینی عوام کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے۔”
پس منظر – اس تنازعہ کی جڑ کہاں ہے؟
غزہ پر اسرائیلی حملے کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ دہائیوں سے جاری تنازعے کا ایک اور خونی باب ہے۔
فلسطینی عوام 1948ء سے لے کر آج تک ایک آزاد ریاست کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ 2007ء سے غزہ پر حماس کی حکومت ہے، جسے اسرائیل ایک “دہشت گرد تنظیم” قرار دیتا ہے۔ اس کے بعد سے غزہ پر کئی جنگیں مسلط کی جا چکی ہیں، جن میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
کیا کوئی حل موجود ہے؟
دو ریاستی حل
عالمی سطح پر دو ریاستی حل کو سب سے مؤثر راستہ تصور کیا جاتا ہے، جس کے تحت اسرائیل اور فلسطین کو علیحدہ خودمختار ریاستیں تسلیم کیا جائے۔ لیکن اسرائیل کی مسلسل توسیع پسندانہ پالیسی، نئی بستیوں کی تعمیر، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی اس راستے کو مسدود کر رہی ہے۔
عالمی ثالثی کی ضرورت
موجودہ حالات میں اگر فوری طور پر جنگ بندی نہ کی گئی، تو غزہ ایک مکمل انسانی قبرستان میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی، مسلم دنیا اور بڑے عالمی کھلاڑیوں کو ثالثی کا کردار ادا کرنا ہوگا۔
انسانیت کی شکست، انصاف کا امتحان
غزہ میں ہونے والے واقعات صرف ایک جغرافیائی تنازعہ نہیں، بلکہ یہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ بےگناہ فلسطینیوں پر جاری ظلم عالمی ضمیر کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔
اگر آج بھی عالمی برادری خاموش رہی، تو کل یہ ظلم دنیا کے کسی اور کونے میں سر اٹھائے گا۔