جب حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ہماری باتیں سن رہی ہے، تو کیا واقعی ہماری آواز سننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری پرائیویسی ختم کر رہی ہے؟

حکومت کی مانیٹرنگ: شہریوں کا حق یا نگرانی کا کھیل؟
پاکستان میں لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ حکومت ان کی بات نہیں سنتی، لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیق بتاتی ہے کہ حکومت کروڑوں فون کالز کو مانیٹر کر رہی ہے۔ کیا واقعی یہ بات سننا ہے، یا صرف ایک طرفہ نگرانی اور پرائیویسی کی پامالی؟ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت ہماری باتیں سن بھی رہی ہے، تو پھر عوام کے مسائل کیوں نظر انداز کیے جا رہے ہیں؟
نجی زندگی کی پامالی اور خوف کا ماحول
کروڑوں فونز کی مانیٹرنگ کا مطلب ہے کہ حکومت ہماری ذاتی باتیں، جذبات، اور راز سن رہی ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو شہریوں کی بنیادی آزادیوں اور پرائیویسی کے حق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایسے ماحول میں شہری خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے، جس سے اظہار رائے کی آزادی متاثر ہوتی ہے اور لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ ان کی باتیں سن کر ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
سننا اور سننا: ایک فرق ہے
حکومت کی مانیٹرنگ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ “ہم آپ کی بات سنتے ہیں” کا مطلب یہ نہیں کہ “ہم آپ کی بات سمجھتے یا اس کا حل نکالتے ہیں”۔ بلکہ یہ ایک طاقت ورانہ کنٹرول کا آلہ ہے جس سے سیاسی مخالفین، صحافیوں، اور عام شہریوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ جہاں حکومت اپنے مفادات کے لیے معلومات اکٹھا کرتی ہے، وہاں عوام کے مسائل اور شکایات کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی۔
شفافیت کی عدم موجودگی اور جوابدہی کا فقدان
حکومت نے نہ تو یہ واضح کیا ہے کہ یہ نگرانی کس حد تک قانونی ہے اور کس حد تک اس کی مداخلت جائز ہے۔ عوام کو معلوم نہیں کہ ان کی معلومات کہاں، کیسے، اور کس مقصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ یہ خفیہ نگرانی ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہے جو حکومت کی جوابدہی کو نقصان پہنچاتا ہے۔
سیکیورٹی بہانے عوام کی آزادیوں پر ڈاکہ
اگرچہ حکومت مانیٹرنگ کو سیکیورٹی اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے طور پر پیش کرتی ہے، لیکن اس کے سائے میں شہریوں کی بنیادی حقوق پامال ہوتے ہیں۔ جب سیکیورٹی کو بہانہ بنا کر ہر شہری کی ذاتی زندگی مانیٹر کی جائے، تو یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو جمہوریت اور آزادی کے اصولوں کے منافی ہے۔
پاکستان میں حکومت کی اس وسیع پیمانے پر نگرانی نہ صرف پرائیویسی کا قتل ہے بلکہ عوام کی آواز کو دبانے کا حربہ بھی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی بات سننے کا دعویٰ کرنے کے بجائے ان کی حقیقی بات سنے، ان کے مسائل کا حل نکالے، اور اپنی نگرانی کی پالیسیوں میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنائے۔ بغیر کسی شفافیت اور قانونی بنیاد کے یہ مانیٹرنگ نظام جمہوری اقدار کے لیے زہر قاتل ہے۔