میرا مقصد کبھی کسی کھلاڑی کی بےعزتی نہیں تھا، مگر انصاف کا تقاضا ہے کہ جو آج وقار کی بات کرتے ہیں، وہ کل کی بدزبانی پر بھی آواز بلند کرتے

میرا مقصد صرف وضاحت ہے، بےعزتی نہیں
میری اس پوری گفتگو کا مقصد کسی کھلاڑی کی توہین یا تضحیک نہیں ہے، خاص طور پر ان کھلاڑیوں کی جو اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں، میدان میں پسینہ بہاتے ہیں اور اپنی قوم کے لیے فخر کا باعث بنتے ہیں۔ چاہے وہ پاکستان سے ہوں یا بھارت سے، ہر کھلاڑی عزت کا مستحق ہے۔ لیکن کچھ سوالات ایسے ہوتے ہیں جو وضاحت طلب ہوتے ہیں، اور ان پر بات کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے: اصول سب کے لیے برابر کیوں نہیں؟
آج جب محمد یوسف نے سوریا کمار یادیو کے بارے میں ایک غیر ضروری تبصرہ کیا تو فوراً سوشل میڈیا پر شور مچ گیا، ردعمل آیا، اور لوگوں نے اخلاقیات کا درس دینا شروع کر دیا۔ کسی بھی شخصیت کی طرف سے غیر مناسب الفاظ کا استعمال قابلِ مذمت ہے، اور محمد یوسف کے بیان پر تنقید بجا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جب اسی طرح کا یا اس سے بھی زیادہ شدید لہجہ عرفان پٹھان جیسے سابق بھارتی کرکٹر نے اپنایا تھا، تب وہی بھارتی عوام کہاں تھے جو آج اخلاق اور وقار کی بات کر رہے ہیں؟ اس وقت عرفان پٹھان نے شاہد آفریدی کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے، کیا وہ قابل قبول تھے؟ کیا ان پر بھی اتنی ہی تنقید ہوئی؟ کیا بھارتی میڈیا یا سوشل میڈیا صارفین نے اتنا ہی سخت ردعمل دیا جتنا آج دے رہے ہیں؟
عرفان پٹھان کا بیان: ایک نظرثانی طلب رویہ
عرفان پٹھان، جو خود ایک بین الاقوامی سطح کے کرکٹر رہے ہیں، ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔ مگر انہوں نے جس انداز میں شاہد آفریدی جیسے سینئر کھلاڑی کے لیے “کتے” جیسے الفاظ استعمال کیے، وہ کسی طور بھی مناسب نہیں تھا۔ اس پر اگر بھارتی عوام نے خاموشی اختیار کی تو وہ بھی اس رویے کے معاون بنے۔ اگر آج کسی پاکستانی کھلاڑی کے الفاظ پر ردعمل جائز ہے تو کل بھارتی کھلاڑی کے الفاظ پر خاموشی کیوں؟
اخلاقیات کا پیمانہ سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے
انصاف، اخلاق اور اصول اگر صرف اپنے فائدے کے وقت یاد آئیں تو وہ انصاف نہیں بلکہ منافقت کہلاتی ہے۔ اگر ہم واقعی کھیل کو جوڑنے والا ذریعہ سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں زبان اور لہجے کے معاملے میں دونوں طرف ایک جیسا معیار اپنانا ہوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جو بات بھارتی کھلاڑی کرے وہ ’غیرت‘ اور ’محب وطنی‘ کہلائے، اور وہی بات اگر پاکستانی کھلاڑی سے سرزد ہو تو ’بدتمیزی‘ یا ’غیر اخلاقی‘ قرار پائے۔
سوشل میڈیا کا کردار: نفرت بڑھائیں یا سمجھداری دکھائیں؟
سوشل میڈیا آج کی دنیا میں طاقتور ترین پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک جملہ کسی کا کیریئر بنا یا بگاڑ سکتا ہے۔ اس لیے جب ہم کسی بیان پر ردعمل دیتے ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم اس ردعمل کے ذریعے نفرت پھیلا رہے ہیں یا انصاف کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اگر عرفان پٹھان کی زبان پر خاموشی اور محمد یوسف کی زبان پر ہنگامہ ہے، تو یہ توازن کا فقدان ہے۔
ہمیں خود بھی بہتر ہونا ہوگا
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے کھلاڑیوں کو عزت دی جائے، تو ہمیں دوسروں کے کھلاڑیوں کی بھی عزت کرنی ہوگی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے خلاف بدزبانی نہ ہو، تو ہمیں بھی زبان کو مہذب رکھنا ہوگا۔ اخلاقیات، اصول، اور عزت کا مطالبہ کرنے سے پہلے ہمیں خود بھی ان پر عمل کرنا ہوگا۔
پس منظر میں موجود واقعہ
ایشیا کپ کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد یوسف نے سوریا کمار یادیو کے بارے میں ایک غیر مناسب لفظ استعمال کیا تھا۔ اس بیان پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ لیکن اسی پس منظر میں ماضی کا ایک واقعہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے، جب عرفان پٹھان نے شاہد آفریدی کے لیے نہایت نازیبا لفظ استعمال کیا تھا، اور اس پر بھارتی میڈیا یا عوام کی جانب سے کوئی خاطر خواہ مذمت نہیں کی گئی۔