اسرائیلی فضائیہ کی یمن کے حدیدہ بندرگاہ پر شدید فضائی حملے

گزشتہ چند روز میں اسرائیلی فضائیہ نے یمن کے بحرِ احمر میں واقع اہم بندرگاہ حدیدہ کو شدید فضائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ حدیدہ بندرگاہ، جو یمن کا ایک اسٹریٹجک اور تجارتی مرکز ہے، حوثی باغیوں کے کنٹرول میں ہے اور خطے میں عسکری اور معاشی اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ اس حملے کی خبر حوثی تحریک سے وابستہ ٹی وی چینل “المسیرہ” نے دی، جس کے مطابق اسرائیل نے اس بندرگاہ پر بارہ فضائی حملے کیے۔

حدیدہ کی اسٹریٹجک اہمیت

حدیدہ بندرگاہ یمن کے لیے اقتصادی اور فوجی نقطہ نظر سے نہایت اہم ہے۔ یمن کی زیادہ تر تجارتی سرگرمیاں اور امدادی سامان اسی بندرگاہ کے ذریعے آتا ہے۔ بین الاقوامی امدادی ادارے بھی حدیدہ بندرگاہ کو یمن میں انسانی بحران کے دوران رسد پہنچانے کے لیے کلیدی حیثیت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ بندرگاہ بحیرہ احمر کے راستے عالمی تجارت اور تیل کی ترسیل کے لیے ایک مرکزی نقطہ ہے، جس کی وجہ سے اس پر حملے کے عالمی سطح پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اسرائیلی حملوں کی تفصیلات اور انخلا کی ہدایات

خلیج ٹائمز کے مطابق، اسرائیلی فضائی حملے اس وقت کیے گئے جب اسرائیلی فوج نے بندرگاہ کے اردگرد رہائش پذیر افراد کو انخلا کی ہدایت جاری کی تھی تاکہ ممکنہ جانی نقصان کو کم کیا جا سکے۔ تاہم، ایسے فضائی حملے عموماً بڑے پیمانے پر تباہی اور جانی نقصان کا باعث بنتے ہیں، خاص طور پر اس خطے میں جہاں پہلے ہی انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔

صنعا اور الجوف پر بھی حملے

یہ فضائی حملے اسرائیل کی جانب سے یمن کے دارالحکومت صنعا اور شمالی صوبے الجوف پر حالیہ فضائی کارروائیوں کے بعد سامنے آئے ہیں۔ اسرائیل ان علاقوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے جہاں حوثی باغی مستحکم ہیں۔ یہ حملے اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری عسکری کارروائیوں کا حصہ ہیں، جن کا مقصد حوثی باغیوں کی عسکری صلاحیتوں کو کمزور کرنا ہے۔

حوثی عسکری ترجمان کا موقف

حوثی عسکری ترجمان یحییٰ سریع نے کہا ہے کہ یمن کی فضائی دفاع اس وقت “اسرائیلی دشمن طیاروں کی جارحیت کا سامنا کر رہی ہے”۔ یہ بیان حوثی گروپ کی جانب سے اپنے دفاع کی کوششوں اور جارحانہ حملوں کا مقابلہ کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔ حوثی گروپ کی جانب سے اکثر اسرائیلی حملوں کے جواب میں میزائل داغے جاتے ہیں، جن میں سے بیشتر کو اسرائیلی دفاعی نظام نے راستے میں تباہ کر دیا ہے۔

حوثی گروپ کی جوابی کارروائیاں اور فلسطینی یکجہتی

حوثی تحریک نے حالیہ ہفتوں میں بحیرہ احمر میں کئی بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ان حملوں کو حوثیوں نے غزہ کے فلسطینیوں سے یکجہتی کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ جوابی کارروائیاں اسرائیل کے خلاف حوثی تحریک کے جارحانہ موقف کو ظاہر کرتی ہیں۔ حوثیوں کی طرف سے داغے گئے میزائلوں اور بحری حملوں کا مقصد اسرائیل پر دباؤ ڈالنا اور فلسطینیوں کی حمایت میں اپنی سیاست کو اجاگر کرنا ہے۔

خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی

اسرائیلی فضائی حملوں اور حوثی جوابی کارروائیوں سے مشرق وسطیٰ کے اس حصے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یمن پہلے ہی ایک طویل عرصے سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے، جس کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل اور حوثی گروپ کے درمیان جاری یہ لڑائی علاقائی طاقتوں کے مابین سیاسی و عسکری تنازعات کو بھی بڑھاوا دے رہی ہے، جس میں ایران کا حوثی تحریک کی حمایت کرنا اور اسرائیل کا اس کا مقابلہ کرنا شامل ہے۔

بحیرہ احمر کا عالمی تجارتی راستہ

بحیرہ احمر عالمی تجارت کا ایک اہم محور ہے، خاص طور پر تیل کی ترسیل کے لیے۔ اس کے کنارے واقع بندرگاہیں، خاص طور پر حدیدہ، عالمی معیشت کے لیے اہم ہیں۔ اسرائیلی حملے اگرچہ عسکری نقطہ نظر سے حوثیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، لیکن ان کا اثر عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں اور تجارتی راستوں کی حفاظت پر بھی پڑتا ہے۔ اگر بحیرہ احمر میں کشیدگی بڑھی تو عالمی منڈی پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔

انسانی بحران اور امدادی کاموں پر اثرات

یمن میں گزشتہ کئی سالوں سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے ایک سنگین انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔ حدیدہ بندرگاہ پر حملے سے امدادی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے، جو یمنی عوام کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنے گا۔ اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ادارے بارہا حدیدہ بندرگاہ کی حفاظت کی اپیل کر چکے ہیں تاکہ انسانی امداد بلا تعطل جاری رہے۔

علاقائی اور عالمی سیاسی اثرات

اسرائیلی فضائی حملے اور حوثی جوابی کارروائیاں نہ صرف یمن بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال کو متاثر کر رہی ہیں۔ اس کشیدگی کے پیچھے ایران اور سعودی عرب سمیت دیگر خطائی طاقتوں کا بھی ہاتھ ہے، جو یمن میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ تنازعہ عالمی سطح پر طاقت کے توازن اور سلامتی کی صورت حال پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔

مستقبل کے امکانات اور سلامتی کے چیلنجز

اگر اس کشیدگی کو قابو نہ کیا گیا تو یہ خطے میں مزید شدت اختیار کر سکتی ہے، جس کے اثرات عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ یمن میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مؤثر سفارتی کوششیں کرے اور خطے میں استحکام کے لیے پائیدار حل تلاش کرے۔

اسرائیلی فضائیہ کی حدیدہ بندرگاہ پر فضائی حملے اور حوثی گروپ کی جوابی کارروائیاں یمن میں جاری جنگ کے پیچیدہ اور خطرناک مرحلے کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک علاقائی تنازعہ ہے بلکہ عالمی امن، سلامتی اور معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ خطے کے تمام فریق عالمی قوانین اور انسانی حقوق کا احترام کریں اور مسئلہ کے پائیدار حل کے لیے بات چیت کو ترجیح دیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں