“جب گارڈفادر اچانک چپڑاسی کی عزت کرنے لگے، تو سمجھ جاؤ کہ کوئی بڑا سودا پکا ہو چکا ہے!” — سینئر فلسطینی صحافی علی السمودی

پاکستان–سعودی معاہدہ: پردے کے پیچھے ایک خطرناک خاموشی
“جب کوئی گارڈفادر اچانک کسی چپڑاسی کی عزت کرنے لگے، اس کے کندھے پر شاباشی کی تھپکی دے اور غیر معمولی پروٹوکول دے، تو سمجھ جانا کہ گارڈفادر نے اس چپڑاسی سے کوئی بڑا کام نکلوانا ہے۔”
یہ جملہ نہ کسی طنز ہے نہ مذاق — بلکہ یہ وہ سچ ہے جو آج کی مسلم دنیا، خصوصاً پاکستان اور سعودی عرب کے بدلتے رشتوں کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
یہ جملہ کسی عام شخص نے نہیں کہا، بلکہ سینئر فلسطینی صحافی علی السمودی نے اس وقت کہا جب سعودی عرب نے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کو غیر معمولی پروٹوکول دیا اور دونوں ممالک کے بیچ ایک “اعلیٰ سطحی” معاہدے کا اعلان کیا گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ پروٹوکول واقعی بھائی چارے کی علامت ہے؟ یا یہ اس “ابراہیمی ایجنڈے” کی سیڑھی ہے جس کا مقصد مسلم دنیا کو اسرائیل کے قدموں میں جھکانا ہے؟
پہلا حصہ: پروٹوکول یا پریشر؟
سعودی عرب کی حالیہ روش نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے:
-
شہباز شریف کو کس بنیاد پر اتنا پروٹوکول دیا گیا؟
-
کیا پاکستان کی معیشت اتنی مستحکم ہو گئی کہ وہ سعودیہ کے لیے کوئی خاص اہمیت رکھتا ہو؟
-
یا پھر یہ سب کچھ کسی بڑے منصوبے کا ٹریلر ہے؟
یہاں ہمیں علی السمودی کے الفاظ یاد رکھنے چاہییں:
“یہ سب عزت نہیں، سودا ہے — اور سودا وہ ہوتا ہے جو مستقبل میں قیمت مانگے۔”
دوسرا حصہ: ابراہیمی معاہدہ — پس منظر اور مفہوم
ابراہیمی معاہدے (Abraham Accords) کی بنیاد 2020 میں رکھی گئی، جب متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کیے۔
اس کا مقصد تھا:
-
اسرائیل کی علاقائی قبولیت
-
عرب دنیا کو فلسطین کے حق سے ہٹانا
-
اور ایران کے خلاف عرب-اسرائیل اتحاد بنانا
اب اگلا ہدف ہے: سعودی عرب
اور سعودی عرب کو اس منصوبے میں شامل کرنے کے لیے، اس کے گرد موجود تمام اتحادیوں کو بھی ساتھ لانا ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
تیسرا حصہ: پاکستان کو خریدنے کی کوشش؟
پاکستان، جس کی معیشت تباہ حال، سیاست تقسیم شدہ، اور خارجہ پالیسی بے سمت ہے — اس وقت بہت آسان ٹارگٹ ہے۔
لہٰذا:
-
سعودی عرب پاکستان کو “عزت” کے نام پر خفیہ دباؤ میں لا رہا ہے
-
امریکہ اور اسرائیل “معاشی مدد، پروجیکٹس اور سفارتی حمایت” کا لالچ دے رہے ہیں
-
میڈیا میں فلسطین کے حق میں بولنے والوں کو خاموش کیا جا رہا ہے
اس کے ساتھ ساتھ:
-
جنرل عاصم منیر کی ٹرمپ سے مبینہ ملاقاتیں
-
پاکستانی وفود اور صحافیوں کی اسرائیل میں موجودگی
-
پاکستانی میڈیا پر اسرائیل مخالف بیانیے کی سنسرشپ
یہ سب اشارے ایک بات کی طرف جاتے ہیں:
“سودا تیار ہو چکا ہے، صرف دستخط باقی ہیں!”
چوتھا حصہ: فلسطین کے ساتھ بے وفائی
اگر پاکستان اور سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لیتے ہیں تو:
-
یہ صرف ایک سفارتی فیصلہ نہیں ہوگا
-
یہ بیت المقدس کا سودا ہوگا
-
یہ فلسطینی شہداء، معصوم بچوں، تباہ حال بستیوں، اور امت کی روح سے غداری ہوگی
پھر ہمیں یہ نعرہ سننے کو ملے گا:
“فلسطین پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے!”
حالانکہ یہی لوگ کل اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہوں گے۔ یہ نعرے صرف عوامی غصہ قابو کرنے کے لیے بیچے جائیں گے — جیسے چورن بیچا جاتا ہے۔
پانچواں حصہ: علاقائی خطرات اور ابراہام کارڈ
یہی وہ نکتہ ہے جسے عام لوگ نہیں سمجھتے:
-
اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کسی تنازعے کی صورت بنتی ہے
-
اور پاکستان سعودی کا “حلیف” بن چکا ہو
-
تو اسرائیل یا امریکہ براہِ راست پاکستان پر دباؤ ڈال سکتے ہیں
ادھر بھارت یا کسی ہمسائے سے خطرہ ہو، تو پاکستان ایک وقت میں دو طرفہ دباؤ کا شکار ہو جائے گا۔
اور اس صورتحال میں ہمارے سامنے صرف ایک آپشن رہ جائے گا:
ابراہام کارڈ میں شامل ہو جاؤ — یعنی اسرائیل کو تسلیم کرو، ورنہ سب کچھ کھو دو!
چھٹا حصہ: پاکستان کی اصل حیثیت — نہ تلوار، نہ ڈھال
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان معاہدہ:
-
نہ پاکستان کے لیے کوئی نئی ڈھال ہے
-
نہ سعودی عرب کے لیے کوئی نئی تلوار
یہ محض ایک سیاست زدہ، خارجی دباؤ میں لپٹی، اور ذاتی مفادات سے لتھڑی سودے بازی ہے۔
یہ سوچنا کہ:
-
“پاکستان ایٹم بم کے ساتھ سعودی عرب کا دفاع کرے گا”
-
یا “سعودی عرب بھارت کے خلاف پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا”
یہ سب صرف خوابِ خرگوش ہیں۔
کیونکہ:
-
پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہے
-
فوج اندرونی سیاست میں الجھی ہوئی ہے
-
سعودی عرب نے امریکہ اور بھارت میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے
کوئی بھی ملک اپنے کاروباری مفاد پر دوستیاں قربان نہیں کرتا — یہی سفارتی حقیقت ہے۔
نتیجہ: جب عزت پروٹوکول نہیں، سودے کا آغاز ہو
سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ بڑھتا ہوا پروٹوکول اور ظاہری محبت دراصل:
-
ایک نرم سودے بازی
-
ایک سیاسی احسان
-
اور ایک معاشی جال ہے
یہ عزت نہیں — یہ وہ شروعات ہے جہاں تمہیں احساس بھی نہیں ہوگا کہ تم کب اپنے اصول، عقیدہ اور وفاداری فروخت کر بیٹھے۔
“جب گارڈفادر تمہیں سینے سے لگائے، تو یہ نہ سمجھو کہ تم اہم ہو گئے ہو — بلکہ یہ سوچو کہ تمہیں کس قیمت پر بیچا جائے گا!”