20 ستمبر کا دن تاریخ کے آئینے میں — یروشلم کا محاصرہ اور اسلامی عظمت کی یادگار

20 ستمبر: یروشلم کے محاصرے کا دن — سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں اسلامی عظمت کی واپسی کا آغاز

“تاریخ گواہ ہے کہ کچھ دن صرف کیلنڈر میں تاریخیں نہیں ہوتے، وہ پوری امت کی روح میں پیوست ایک زندہ یاد بن جاتے ہیں۔ 20 ستمبر 1187 بھی ایسا ہی دن ہے — جب یروشلم کے دروازے سلطان صلاح الدین ایوبی کی للکار پر لرز اٹھے۔”


پسِ منظر: یروشلم کا سقوط اور امت کا زخم

یروشلم، تینوں آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس شہر، سن 1099ء میں صلیبی افواج کے ہاتھوں مسلمانوں سے چھن گیا۔
اس دن کو تاریخ خون میں لپٹی ہوئی تحریر کے طور پر یاد کرتی ہے — جب لاکھوں نہتے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، مسجد اقصیٰ کے در و دیوار کو شہیدوں کے خون سے رنگا گیا، اور اسلام کی عظمت کے نشان مٹا دینے کی کوشش کی گئی۔

صلیبیوں کی یہ درندگی صرف زمینی قبضہ نہیں تھی، بلکہ امتِ مسلمہ کے دل پر گہرا زخم تھی، جو برسوں تک رستا رہا۔


صلاح الدین ایوبی: وہ چراغ جو اندھیرے میں جلا

صلاح الدین ایوبی (1137–1193) نہ صرف ایک فاتح سپہ سالار تھے، بلکہ ایک بااصول، رحم دل اور عدل پر مبنی اسلامی حکمران بھی۔
انہوں نے اپنی نوجوانی میں ہی یہ عہد کیا تھا کہ وہ یروشلم کو آزاد کروا کر رہیں گے۔

یہ عہد ان کی زندگی کا نصب العین بن گیا، اور پھر حِطّین کی جنگ (4 جولائی 1187) میں صلیبی فوجوں کو زبردست شکست دینے کے بعد، انہوں نے یروشلم کی طرف پیش قدمی کی۔


20 ستمبر 1187: یروشلم کا محاصرہ

یہی وہ دن تھا، 20 ستمبر 1187، جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کا تاریخی محاصرہ شروع کیا۔
یہ محاصرہ عسکری طور پر مکمل حکمتِ عملی اور اخلاقی طور پر مکمل شفافیت کا مظہر تھا۔

صلاح الدین نے شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیا، مگر شہریوں کے لیے ہر ممکن راستہ باقی رکھا تاکہ خونریزی سے بچا جا سکے۔
انہوں نے صلیبیوں کو پیشکش کی کہ وہ شہر کو پرامن طریقے سے حوالے کر دیں، بدلے میں عام شہریوں کو امان دی جائے گی۔


صلیبی حکمرانوں کی پسپائی

یروشلم کے صلیبی گورنر بالیان آف ایبلین نے ابتدائی طور پر مزاحمت کی، مگر جلد ہی محسوس کر لیا کہ:

چند دن کے محاصرے کے بعد بالیان نے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کی، جسے سلطان صلاح الدین نے قبول کیا — مگر اسلامی شرافت اور رحم دلی کی ایسی مثال قائم کی جو تاریخ میں روشن باب بن گئی۔


2 اکتوبر 1187: یروشلم کی فتح، مگر خون کے بغیر

2 اکتوبر 1187 کو، یعنی محاصرے کے صرف 12 دن بعد، یروشلم مسلمانوں کے ہاتھ آ گیا۔
مگر جو فرق سب سے زیادہ نمایاں تھا، وہ تھا فتح کا انداز۔

  • صلاح الدین نے عام معافی کا اعلان کیا

  • عیسائیوں کو اجازت دی کہ وہ فدیہ دے کر شہر سے محفوظ نکل جائیں

  • چرچوں کو نقصان نہیں پہنچایا گیا

  • صلیبیوں کے بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو عزت کے ساتھ شہر سے نکالا گیا

  • مسجد اقصیٰ کو دوبارہ صاف کیا گیا اور اذان بلند کی گئی

یہی وہ موقع تھا جب 89 سال بعد یروشلم میں پھر سے “اللہ اکبر” کی صدائیں گونجیں۔


سلطان صلاح الدین کا عظیم ظرف

یہ محض جنگی کامیابی نہیں تھی، بلکہ اخلاقی برتری اور دینی غیرت کی فتح تھی۔
سلطان صلاح الدین نے ایسے وقت میں دشمن کو معاف کیا، جب وہ چاہتے تو بدلے میں وہی کچھ کر سکتے تھے جو صلیبیوں نے 1099 میں مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔

مگر انہوں نے اسلامی اصولوں کو ترجیح دی، اور عدل، رحم اور حکمت سے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔


20 ستمبر کا پیغام آج کے لیے

آج جب امت مسلمہ ظلم، تقسیم اور قیادت کے بحران کا شکار ہے، تو 20 ستمبر 1187 ہمیں یاد دلاتا ہے کہ:

  • باکردار قیادت تاریخ کے دھارے کو موڑ سکتی ہے

  • ایمان، اتحاد اور صبر سے فتح ممکن ہے

  • فتح صرف میدانِ جنگ سے نہیں، کردار، عدل اور رحم سے حاصل ہوتی ہے

  • اگر نیت خالص ہو اور راستہ دین کا ہو، تو وقت کی سب سے بڑی طاقتیں بھی زوال پذیر ہو جاتی ہیں


نتیجہ

20 ستمبر صرف ایک تاریخی تاریخ نہیں، یہ ایک روشن چراغ ہے، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ غلامی اور زوال چاہے کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہو، امت کا ایک سچا سپاہی، ایک بااخلاق رہنما، اور ایک خالص نیت اسے آزادی میں بدل سکتا ہے۔

یروشلم کی آزادی صرف ایک شہر کی بازیابی نہیں تھی، بلکہ یہ اسلامی غیرت کی فتح، اور صلیبی طاقت کے زوال کا آغاز تھا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کا یروشلم محاصرہ ہمیں سکھاتا ہے کہ تاریخ لکھنے کے لیے تلوار سے پہلے ایمان اور انصاف کا ہونا ضروری ہے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں