“پہلے اس کی گردن نہ ہلے، پھر چیئرمین کیسے بنے؟”

عہدے قابلیت کے محتاج ہوتے ہیں، “عزت” کے نہیں

پاکستانی معاشرے میں اکثر اہم عہدے کسی کی سیاسی وابستگی، سماجی شہرت یا تعلقات کی بنیاد پر دے دیے جاتے ہیں، بغیر اس بات کا جائزہ لیے کہ کیا وہ شخصیت اُس کردار کی حقیقی طور پر اہل ہے؟

چوہدری شجاعت حسین کی حالیہ تقرری بطور پاکستان باڈی بلڈنگ اینڈ فٹنس فیڈریشن کے چیئرمین اسی روایت کا تسلسل نظر آتی ہے — اور سوشل میڈیا پر اٹھنے والے اعتراضات اور تبصرے محض مذاق نہیں بلکہ ایک وسیع ادارہ جاتی بحران کی علامت ہیں۔


 بنیادی سوال: “جو اپنی گردن تک نہیں ہلا سکتا، وہ باڈی بلڈنگ کیسے چلا سکتا ہے؟”

یہ بات کسی کی جسمانی کمزوری کا مذاق نہیں بلکہ ادارے کی نوعیت اور اس کی ضروریات کو سمجھنے کی بات ہے۔

پاکستان باڈی بلڈنگ اینڈ فٹنس فیڈریشن:

  • ایک ایسا ادارہ ہے جس کا کام نوجوانوں میں فٹنس کو فروغ دینا،

  • قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھلاڑیوں کی نمائندگی،

  • اور منظم تربیت، فنڈنگ، اور سہولیات کی فراہمی ہے۔

تو سوال یہ بنتا ہے کہ:

کیا ایک عمر رسیدہ، طبیعت سے کمزور اور جسمانی طور پر غیر فعال فرد اس ادارے کو محض اعزازی عہدے کے طور پر سنبھال سکتا ہے؟


 ادارہ سازی اور تقرری کا بنیادی اصول: “اہلیت”

 کیوں تقرری پر اعتراض کیا جا رہا ہے:

  1. باڈی بلڈنگ ایک فزیکل اسپورٹ ہے، قیادت بھی فٹنس کو ریفلیکٹ کرے۔
    اگر چیئرمین خود ہی صحت کی گواہی نہ دے پائے تو کھلاڑی کیسے متاثر ہوں گے؟

  2. کیا چوہدری شجاعت نے کبھی باڈی بلڈنگ، فٹنس، یا اسپورٹس ایڈمنسٹریشن میں کوئی عملی کردار ادا کیا ہے؟

  3. نوجوانوں کو رول ماڈل کی ضرورت ہوتی ہے — کیا وہ واقعی نوجوانوں کے لیے فٹنس کی علامت بن سکتے ہیں؟

  4. فیڈریشن کا چیئرمین صرف پروٹوکول نہیں بلکہ ایک فعال سربراہ ہوتا ہے، جسے فیصلہ سازی، بجٹ مینجمنٹ، اور عالمی اداروں سے تعلقات میں سرگرم کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔


 یہ تقرری اداروں کا مذاق اُڑاتی ہے؟

یہ پہلا موقع نہیں کہ کھیلوں یا تعلیمی اداروں میں نامور شخصیات کو بغیر میرٹ کے سربراہ بنا دیا گیا ہو۔

لیکن ایسی تقرریاں:

  • محنت کرنے والے کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں

  • اصل اہل افراد کو کنارے لگا دیتی ہیں

  • اور عوامی اعتماد کو مجروح کرتی ہیں کہ شاید عہدے اب صرف نامور لوگوں کی جاگیر بن چکے ہیں


 ذاتی عزت یا عوامی اعتماد؟

چوہدری شجاعت بلاشبہ ایک بزرگ سیاستدان ہیں، اور ان کی خدمات اپنی جگہ، مگر ہر عہدہ ہر شخص کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔
یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ:

کیا انہیں خود یہ عہدہ قبول کرنا چاہیے تھا؟
یا کیا وہ صرف اعزازی سرپرست کی حیثیت سے کام نہ کرتے؟


 حل کیا ہے؟

  1. فیڈریشنز کے لیے باقاعدہ سلیکشن کمیٹیاں بننی چاہئیں جو تجربہ، فٹنس، اور کھیل سے وابستگی کی بنیاد پر تقرری کریں۔

  2. کسی بھی چیئرمین یا صدر کی تقرری کے لیے عوامی یا کھلاڑیوں کی رائے لی جائے — کیونکہ ادارے عوام کے لیے ہوتے ہیں، چند شخصیات کے لیے نہیں۔

  3. اعزازی عہدے الگ رکھے جائیں، انتظامی الگ۔
    اگر کوئی شخصیت باعزت ہے، تو اسے “پیٹرن ان چیف” یا “ایمبسڈر” بنایا جا سکتا ہے — لیکن پالیسی، بجٹ اور کھلاڑیوں کی زندگی سے کھیلنے کا اختیار انہیں نہ دیا جائے۔


 مذاق کم، سوال زیادہ

سوشل میڈیا پر جو طنز کیا جا رہا ہے کہ “جو شخص اپنی گردن تک نہیں ہلا سکتا، اسے باڈی بلڈنگ کی سربراہی دی گئی ہے” — یہ طنز نہیں، بلکہ ایک بہت گہرا سوال ہے:

کیا ہمارے ادارے کسی کے نام سے چلیں گے یا کام سے؟

فیڈریشنز اگر محض اعزازی عہدوں کی تقسیم کا کھیل بن گئیں، تو پھر نہ کھلاڑیوں کی حالت بدلے گی، نہ پاکستان کی بین الاقوامی کارکردگی بہتر ہو گی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں