ایرانی صدر نے اپنے نائب کو کیوں برطرف کر دیا؟

ایران کے سیاسی حلقوں میں اس وقت ہلچل مچ گئی جب صدر مسعود پزشکیان نے اپنے پارلیمانی امور کے نائب صدر شہرام دبیری کو انٹارکٹیکا کے ایک مہنگے اور لگژری دورے کے باعث برطرف کر دیا۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب ایران سخت معاشی بحران سے گزر رہا ہے، افراط زر کی شرح بلند ترین سطح پر ہے اور عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں کسی اعلیٰ سرکاری عہدیدار کی پرتعیش غیر ملکی سیاحت سوشل میڈیا پر سخت عوامی ردِعمل کا باعث بنی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک تصویر میں شہرام دبیری کو ان کی اہلیہ کے ساتھ انٹارکٹیکا کے پلانس کروز جہاز کے قریب کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لگژری کروز ایک مشہور ڈچ کمپنی کی ملکیت ہے جو 2009 سے انٹارکٹیکا میں سیاحتی سفر فراہم کر رہی ہے، اور اس آٹھ روزہ سفر کی فی مسافر قیمت 3,885 یورو ہے۔ اس تصویر کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ایرانی عوام اور سیاسی مبصرین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور صدر پر دباؤ بڑھا کہ وہ اپنے نائب کے خلاف کارروائی کریں۔
ایرانی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق صدر پزشکیان نے ایک تحریری بیان میں کہا کہ “ایسے وقت میں جب عوام پر معاشی دباؤ بہت زیادہ ہے، حکومتی اہلکاروں کے مہنگے تفریحی دورے — چاہے وہ ذاتی خرچ پر ہوں — نہ تو قابلِ دفاع ہیں اور نہ ہی قابلِ جواز۔” 64 سالہ شہرام دبیری، جو پیشے کے لحاظ سے معالج ہیں، صدر کے قریبی ساتھی شمار ہوتے تھے اور انہیں صرف چند ماہ قبل اگست میں اس اہم عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ارنا نے گزشتہ ماہ کے آخر میں دبیری کے دفتر کے ایک ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ دورہ اس وقت کیا گیا جب وہ ابھی سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ تاہم، یہ وضاحت عوامی غصے کو کم کرنے میں ناکام رہی اور سیاسی دباؤ کی شدت میں مزید اضافہ ہوا، جو بالآخر ان کی برطرفی پر منتج ہوا۔
یہ تنازع صدر پزشکیان کے لیے ایک اور بڑا سیاسی دھچکا ہے۔ وہ گزشتہ برس اپنے انتخابی وعدے کے تحت معیشت کو بحال کرنے اور عوام کی روزمرہ زندگی میں بہتری لانے کے دعوے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ لیکن ان کے دورِ حکومت کے آغاز سے ہی معاشی بدحالی، کرنسی کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ان کی حکومت کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے مارچ کے آغاز میں ایرانی پارلیمنٹ نے وزیر برائے معاشی امور عبدالناصر ہمتی کو معاشی صورتحال کی ابتر حالت اور ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال کی قدر میں کمی کے باعث برطرف کر دیا تھا۔ ان تمام واقعات نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ ایرانی حکومت نہ صرف عالمی پابندیوں سے نمٹنے میں مشکلات کا شکار ہے بلکہ اندرونی سطح پر بھی اسے سخت عوامی اور سیاسی ردعمل کا سامنا ہے۔
ایران میں شفاف حکمرانی، کفایت شعاری، اور عوامی اعتماد کی بحالی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے، اور صدر پزشکیان کی حکومت کے لیے یہ واقعہ ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا وہ مزید سخت اقدامات کر کے عوامی اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہ