افغانستان نے پاکستان اور ایران کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکہ کو بگرام کا فوجی اڈا دے دیا ہے

افغانستان کی سرزمین ایک بار پھر عالمی طاقتوں کی دلچسپی کا مرکز بنتی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ افغانستان نے امریکہ کو بگرام کا فوجی اڈا واپس دے دیا ہے تاکہ وہ پاکستان اور ایران جیسے ہمسایہ ممالک پر نظر رکھ سکے اور انہیں کنٹرول میں رکھ سکے۔ یہ خبر جہاں بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن ہے، وہیں اس کے پسِ منظر میں کئی اہم عوامل کارفرما ہیں۔
بگرام ایئر بیس کبھی امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈا تھا، جو افغانستان میں اس کے آپریشنز کی بنیاد سمجھا جاتا تھا۔ جب امریکہ نے 2021 میں افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا کیا تو بگرام بیس بھی خالی کر دیا گیا، اور طالبان حکومت نے وہاں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ لیکن اب اگر واقعی امریکہ کو دوبارہ یہ اڈا استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے، تو یہ طالبان حکومت کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہو سکتی ہے۔
طالبان ہمیشہ امریکہ کے خلاف نعرے لگاتے رہے ہیں اور اسے افغانستان کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے آئے ہیں۔ ایسے میں یہ سوچنا کہ وہی طالبان اب امریکہ کو فوجی اڈا استعمال کرنے دیں گے، بظاہر ناقابل یقین لگتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی سیاست میں کوئی چیز مستقل نہیں ہوتی۔ مفادات، دباؤ، اور وقتی حالات حکومتوں کو ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں جو ان کے ماضی کے مؤقف سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔
اگر افغانستان نے واقعی امریکہ کو بگرام بیس دے دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ افغانستان اب صرف اپنی داخلی سلامتی کی بجائے خطے کی اسٹریٹجک صورتحال کو بھی دیکھ رہا ہے۔ امریکہ پاکستان اور ایران دونوں کو اپنی پالیسیوں میں ایک حد سے آگے جانے سے روکنے کے لیے ہمیشہ سے مختلف حربے استعمال کرتا رہا ہے۔ افغانستان کی سرزمین کا استعمال ان حربوں میں ایک نیا اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور ایران دونوں کے لیے یہ صورتحال تشویشناک ہو سکتی ہے۔ دونوں ممالک پہلے ہی مغربی دباؤ اور علاقائی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر امریکہ کو افغانستان کے اندر بیٹھ کر مزید قربت حاصل ہو جائے، تو یہ ان ممالک کی خودمختاری کے لیے ایک نیا امتحان بن سکتا ہے۔
موجودہ دور میں جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ پالیسی، معیشت، میڈیا اور سٹریٹیجک جگہوں کے ذریعے بھی لڑی جا رہی ہیں۔ بگرام ایئر بیس جیسی جگہیں صرف اڈے نہیں ہوتیں، بلکہ ان کے ذریعے پورے خطے کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر یہ خبر درست ہے تو اسے صرف افغانستان کا داخلی معاملہ سمجھنا غلط ہوگا۔
خطے میں طاقت کا توازن روز بروز بدل رہا ہے۔ افغانستان کی نئی چالیں، امریکہ کی ممکنہ واپسی، اور ہمسایہ ممالک کی پالیسیوں میں رد و بدل آنے والے دنوں میں جنوبی ایشیا کے سیاسی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں.