اسرائیل کی سابقہ وزیر اعظم گولڈا میٹر نے کہا کہ میری زندگی کا سب سے ” برا ” اور ” خوشگوار ” دن وہ تھا

اسلامی دنیا کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک، مسجد اقصیٰ، ہمیشہ سے مسلمانوں کے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ لیکن 21 اگست 1969 کو پیش آنے والا ایک واقعہ، نہ صرف تاریخ میں ایک المناک دن کے طور پر درج ہے بلکہ امت مسلمہ کی غفلت اور بے حسی کی بھی علامت بن گیا۔ یہ وہ دن تھا جب ایک آسٹریلوی انتہا پسند عیسائی، ڈینس مائیکل روحان نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگا دی۔ اس حملے میں مسجد کا تاریخی منبر صلاح الدین مکمل طور پر جل کر راکھ ہو گیا۔
اس واقعے کے بعد ایک قول اسرائیل کی سابق وزیر اعظم گولڈا مئیر سے منسوب کیا جاتا ہے، جس نے مسلم دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ کہتی ہیں:
“میری زندگی کا سب سے ‘برا’ اور ‘خوشگوار’ دن وہ تھا، جب میں نے مسجد اقصیٰ کو آگ میں جلتے دیکھا۔ برا اس لیے کہ میں ساری رات سو نہ سکی، کہ کہیں صبح امت مسلمہ متحد ہو کر اسرائیل پر حملہ نہ کر دے، اور ہمارا وجود مٹ جائے۔ اور خوشگوار اس لیے کہ جب اگلے دن سورج نکلا اور میں نے مسلمانوں کا ردعمل دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ ہمیں امت مسلمہ سے کوئی خطرہ نہیں۔ مسلم حکمران نہ صرف خاموش تھے بلکہ اپنی عوام کو خود احتجاج سے روکنے میں لگے ہوئے تھے۔”
یہ الفاظ چاہے مستند تاریخی ریکارڈ میں نہ ہوں، مگر جو پیغام وہ دیتے ہیں وہ حقیقت سے زیادہ مختلف نہیں۔ مسجد اقصیٰ پر حملہ ہوا، امت مسلمہ کے دل تڑپے، جذبات بھڑکے، لیکن عملاً کچھ نہ ہوا۔ نہ کوئی مشترکہ عسکری قدم، نہ کوئی سیاسی اتحاد، اور نہ کوئی عالمی سطح پر ٹھوس مؤقف۔ یہی گولڈا مئیر کی “خوشی” کا سبب تھا۔
یہ واقعہ صرف ایک تاریخی حادثہ نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہماری اجتماعی کمزوری، انتشار اور قیادت کی ناکامی دکھاتا ہے۔ مسلمانوں کے پاس وسائل ہیں، تعداد ہے، طاقت ہے، مگر وہ اتحاد اور قیادت نہیں جس سے وہ اپنے مقدسات کا تحفظ کر سکیں۔
گولڈا مئیر کا یہ قول آج بھی ہر مسلمان کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے کہ کیا ہم واقعی اپنی مقدس مقامات کے دفاع کے لیے سنجیدہ ہیں؟ یا ہم صرف بیانات، سوشل میڈیا، اور احتجاج تک محدود رہیں گے؟ مسجد اقصیٰ کے نام پر صرف آنسو بہانے سے کچھ نہیں بدلے گا، جب تک کہ ہم ایک امت بن کر اپنے مقدسات کی حرمت کے لیے کھڑے نہ ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں