“جب جرم آزاد ہوں اور پولیس کو آزادی دے دی جائے تو مظلوم قید میں ہی رہتے ہیں” – علیمہ خان کا دوٹوک مؤقف

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں جہاں اداروں کا کردار اور عدلیہ کی خودمختاری زیرِ بحث ہے، وہیں عمران خان کی بہن علیمہ خان نے ایک جرات مندانہ اور فکر انگیز بیان دیا ہے جس نے سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ علیمہ خان کا کہنا ہے کہ “اصل قید میں مجرم ہیں، جب ہم پولیس کو آزاد کر دیں گے تو ہمیں تحفظ ملے گا۔”
انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ ملک میں انصاف تب ہی ممکن ہے جب “مجرم آزاد نہ ہوں بلکہ قانون کے تابع ہوں”۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جس نظام کے تحت فیصلے کیے جا رہے ہیں، وہ مجبور، بے اختیار اور بیرونی دباؤ کے تحت چل رہا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ “ہم مجبور ہیں، پروگرام منسٹر کہتا ہے کہ میں مجبور ہوں، کہا جاتا ہے کہ ہمیں آرڈر آتے ہیں، کہاں سے آتے ہیں کچھ پتہ نہیں” — ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ملک کی اصل حکمرانی کس کے ہاتھ میں ہے؟
علیمہ خان کے اس بیان کو تحریک انصاف کے حامی طبقے نے سچ کی آواز قرار دیا ہے جبکہ بعض ناقدین اسے ایک سیاسی بیانیہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم، اس بیان نے عوام میں ایک بار پھر وہی سوال زندہ کر دیا ہے کہ کیا ملک میں انصاف واقعی اندھا ہے؟ یا پھر طاقتوروں کے لیے قوانین کچھ اور، اور عام لوگوں کے لیے کچھ اور ہیں؟
ان کا مؤقف ریاستی اداروں کی خودمختاری اور شفافیت پر ایک کھلا سوال ہے۔ اگر سچ میں حکومتی وزرا، پولیس اور عدلیہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ وہ صرف “آرڈر” پر کام کر رہے ہیں، اور انہیں یہ بھی علم نہیں کہ یہ آرڈر کہاں سے آ رہے ہیں، تو پھر جمہوریت کا تصور ہی دھندلا ہو جاتا ہے۔
علیمہ خان کا بیان نہ صرف ایک سیاسی آواز ہے بلکہ ایک اجتماعی احساس کی عکاسی بھی کرتا ہے جو موجودہ نظام سے غیر مطمئن ہے۔ ان کے الفاظ ان ہزاروں بے آواز لوگوں کی ترجمانی کر رہے ہیں جو نظام کی بے حسی اور بے انصافی کا شکار ہیں۔