سعودی عرب میں اقامہ کی تجدید کے لیے نئی پالیسی کا نفاذ: تارکین وطن کے لیے سہولت یا چیلنج؟

سعودی عرب نے حال ہی میں اقامہ کی تجدید کے لیے ایک نئی پالیسی متعارف کرائی ہے جس نے ملک میں مقیم لاکھوں غیر ملکی کارکنوں اور ان کے کفیلوں کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ اس نئی پالیسی کا مقصد اقامہ کے نظام کو زیادہ شفاف، لچکدار اور ڈیجیٹل بنانا ہے تاکہ نہ صرف ملکی قانون کو مزید مضبوط کیا جا سکے بلکہ تارکین وطن کو درپیش پیچیدہ مراحل کو بھی آسان بنایا جا سکے۔ نئی پالیسی کے تحت اب اقامہ کی تجدید سال بھر کے بجائے تین ماہ، چھ ماہ یا ایک سال کی مدت کے لیے بھی ممکن ہو گی۔ اس تبدیلی سے ان آجرین کو فائدہ ہوگا جو کم مدت کے پروجیکٹس پر افراد کو بھرتی کرتے ہیں اور انہیں طویل مدتی اقامہ کے اخراجات اٹھانے میں دشواری ہوتی ہے۔ آن لائن نظام کے تحت اقامہ کی تجدید مکمل طور پر ڈیجیٹل ہو گئی ہے، جس سے کاغذی کارروائیوں اور وقت کے ضیاع میں نمایاں کمی آئے گی۔

تاہم، اس پالیسی کے نفاذ کے بعد ایسے غیر ملکی کارکنوں کو احتیاط سے کام لینا ہوگا جن کی ملازمت غیر یقینی ہے، کیونکہ مختصر المدتی اقامہ کی مدت ختم ہونے کے بعد فوری تجدید نہ کروانے کی صورت میں بھاری جرمانے یا ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس پالیسی سے جہاں ایک جانب آجرین اور حکومت کو انتظامی فوائد حاصل ہوں گے، وہیں دوسری جانب کم آمدنی والے مزدوروں کے لیے اس میں نئے چیلنج بھی جنم لے سکتے ہیں۔ سعودی عرب میں پہلے ہی اقامہ سے متعلق قوانین کافی سخت ہیں اور نئی پالیسی ان پر مزید سختی لا سکتی ہے، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو خود کفیل نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔

اس تبدیلی پر مختلف حلقوں کی جانب سے ملے جلے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ کچھ لوگ اس اقدام کو مثبت قرار دے رہے ہیں کیونکہ یہ ڈیجیٹل ترقی اور قانون کی عملداری کی جانب ایک قدم ہے، جبکہ کچھ افراد کا خیال ہے کہ یہ پالیسی کمزور اور غیر مستحکم افراد پر مزید دباؤ ڈالے گی۔ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ سعودی حکومت اپنے وژن 2030 کے تحت ملک کے ہر شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اقامہ کی نئی پالیسی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں