گھروں میں کام کاج کا جھانسہ دے کر لڑکیوں کو عصمت فروشی پر مجبور کرنے والے میاں بیوی ، بیٹا گرفتار

حالیہ دنوں میں تھانہ دھمیال پولیس نے ایک سنگین اور دل دہلا دینے والے جرم کا پردہ چاک کیا ہے جس میں ایک میاں بیوی اور ان کے بیٹے نے گھروں میں کام کاجھانسہ دے کر لڑکیوں کو عصمت فروشی پر مجبور کیا۔ یہ واقعہ انسانی حقوق کی سنگین پامالی اور ایک تکلیف دہ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جو معاشرتی سطح پر اس طرح کے جرائم کی روک تھام کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ملزم عامر عباس نے اپنے منصوبے کے تحت کوٹ ادو سے ایک لڑکی کو اسلام آباد لایا، جہاں وہ لڑکی کو گھریلو کام کاج کے بہانے اپنے گھر لے آیا۔ ابتدا میں لڑکی کو اس بات کا کوئی اندازہ نہ تھا کہ اس کی زندگی میں کیا آنے والا ہے، لیکن جلد ہی ملزم نے اس سے زیادتی کی اور اس کی ویڈیو بنا کر اسے بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد ملزم نے متاثرہ لڑکی کو عصمت فروشی کے دھندے میں ملوث کیا۔ اس جرم میں اس کی اہلیہ ثمینہ اور بیٹا زمان بھی شامل تھے، جو ملزم کے ساتھ اس گھناؤنے دھندے میں شریک تھے۔

ایسی صورتحال میں پولیس کا کردار انتہائی اہم تھا اور تھانہ دھمیال پولیس نے اس کیس میں فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ اس کارروائی کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ سلسلہ صرف ایک لڑکی تک محدود نہیں تھا۔ ملزم نے متاثرہ لڑکی کے بعد اسی طریقے سے اس کی کزن کو بھی کام کاج کے بہانے اپنے جال میں پھانس لیا اور پھر اس کے ساتھ بھی یہی گھناؤنا عمل کیا۔

اس قسم کے جرائم نہ صرف متاثرہ افراد کی زندگیوں کو تباہ کرتے ہیں بلکہ معاشرتی سطح پر بھی اس کی گہری چھاپ چھوڑتے ہیں۔ ایسے واقعات ہمارے معاشرتی تانے بانے کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتے ہیں اور انسانیت کے خلاف سنگین جرم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس جرم کے پیچھے انسانی شرافت کی پامالی اور غیر اخلاقی حرکتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس میں فرد کی عزت اور وقار کو نظرانداز کیا گیا۔

یہ حادثہ اس بات کا غماز ہے کہ ہمارے معاشرتی نظام میں ایسی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے مزید سخت قوانین اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ پولیس نے تفتیش کی، مگر ان جرائم کی جڑوں کو پکڑنا اور اس طرح کے افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ آئندہ ایسی صورتحال کا سامنا نہ ہو۔

اسی طرح کے واقعات میں متاثرہ افراد کو نہ صرف قانونی مدد فراہم کرنا ضروری ہے بلکہ ان کے نفسیاتی علاج اور معاشرتی حمایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اس برے تجربے سے باہر نکل کر اپنی زندگی کو دوبارہ معمول پر لا سکیں۔

یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنے معاشرتی نظام کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور اس طرح کے گھناؤنے جرائم کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف ان متاثرہ افراد کو انصاف ملے گا بلکہ پورے معاشرتی نظام کو یہ پیغام جائے گا کہ انسانی حقوق کی پامالی کرنے والوں کے خلاف کوئی بھی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں