اسحاق ڈار بطور ڈپٹی وزیراعظم: لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ اور قانونی حیثیت

پاکستان کی سیاست میں اسحاق ڈار کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے معاشی میدان سے لے کر انتظامی معاملات تک کئی اہم کردار ادا کیے ہیں۔ جب 2024 کے وسط میں انہیں ڈپٹی وزیراعظم یا نائب وزیر اعظم کے عہدے پر تعینات کیا گیا تو یہ خبر ملکی سیاست میں ایک بڑی پیشرفت کے طور پر دیکھی گئی۔ تاہم اس فیصلے کے ساتھ ہی ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ آیا یہ عہدہ آئینی ہے یا نہیں۔
اسحاق ڈار کی تقرری کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی گئی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پاکستان کے آئین یا قواعد و ضوابط میں ڈپٹی وزیراعظم کے عہدے کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ تک پہنچا جہاں فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ بعد ازاں، عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے اس تقرری کو چیلنج کرنے والی درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دے دیا، جس کا مطلب تھا کہ یہ عہدہ غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس فیصلے کے بعد حکومت نے دسمبر 2024 میں رولز آف بزنس 1973 میں ترمیم کرکے نائب وزیر اعظم کا عہدہ باقاعدہ طور پر شامل کر لیا۔ اس ترمیم کے بعد اسحاق ڈار کی تقرری کو آئینی اور قانونی جواز حاصل ہو گیا، جس سے نہ صرف اس عہدے کو تحفظ ملا بلکہ مستقبل میں کسی اور فرد کی تقرری کی راہ بھی ہموار ہو گئی۔
اسحاق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیراعظم تقرری دراصل مسلم لیگ (ن) کی اندرونی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بھی سمجھی جا رہی ہے۔ یہ تقرری اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی قیادت انہیں اہم فیصلوں میں شریک رکھنا چاہتی ہے اور ان کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف ایک قانونی بحث کو ختم کرتا ہے بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز بھی ہے، جہاں ایک سینئر سیاستدان کو باضابطہ طور پر ڈپٹی وزیراعظم کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ اس تقرری اور عدالت کے فیصلے نے واضح کر دیا ہے کہ اب پاکستان میں نائب وزیر اعظم کا عہدہ صرف سیاسی روایت نہیں بلکہ قانونی حقیقت بھی بن چکا ہے۔