“کیا ڈایناسور کی نئی نسل ایک بار پھر زمین پر اپنی موجودگی کا ثبوت دینے کو تیار ہے؟”

کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اگر کروڑوں سال پہلے معدوم ہو جانے والے ڈایناسور دوبارہ زمین پر لوٹ آئیں تو دنیا کیسی لگے گی؟ یہ سوال کبھی صرف فلموں اور افسانوں تک محدود تھا، مگر آج سائنس کی ترقی کے ساتھ یہ تصور حقیقت کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ سائنسدان اب اس قابل ہو چکے ہیں کہ وہ ڈی این اے کے ذریعے معدوم مخلوقات کے راز کھول سکیں، اور کچھ ماہرین تو ’ڈایناسور کی واپسی‘ جیسے منصوبوں پر بھی کام کر رہے ہیں۔
دنیا بھر کے مختلف سائنسی اداروں میں ایسے تجربات جاری ہیں جن میں پرندوں اور موجودہ رینگنے والے جانوروں کی مدد سے قدیم ڈایناسور کے خدوخال کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بعض سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ چونکہ پرندے ڈایناسور کی جدید نسل کہلاتے ہیں، اس لیے ان کے جینیاتی کوڈ میں تبدیلی لا کر ممکن ہے کہ ان کے ماضی کے اجداد کو جزوی طور پر دوبارہ تخلیق کیا جا سکے۔
ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ حالیہ برسوں میں سائبیریا اور دیگر سرد علاقوں میں برف کے نیچے سے ایسی ہڈیاں اور فوسلز ملے ہیں جن میں ڈایناسور کا جزوی ڈی این اے موجود پایا گیا ہے۔ اگر سائنسدان مکمل جینیاتی خاکہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو یہ عین ممکن ہے کہ کسی دن لیبارٹری میں تیار کردہ ایک چھوٹا ڈایناسور دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
مگر سوال صرف سائنسی کامیابی کا نہیں، بلکہ اخلاقی اور عملی پہلوؤں کا بھی ہے۔ کیا زمین پر ایک بار پھر ایسی عظیم الجثہ اور طاقتور مخلوقات کی موجودگی انسانوں کے لیے محفوظ ہوگی؟ کیا قدرتی توازن بگڑ جائے گا؟ ان سوالات نے ماہرین کو دو رائے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کچھ کا ماننا ہے کہ یہ تجربے صرف سائنسی دلچسپی کے لیے ہونے چاہئیں، نہ کہ انہیں حقیقت کا روپ دیا جائے۔
اس کے باوجود، انسان کی فطرت میں ایک بات ہے — دریافت کرنا، آگے بڑھنا، اور وہ چیزیں واپس لانا جو کبھی ختم ہو گئیں۔ اگرچہ ہم آج بھی صرف ابتدائی مراحل میں ہیں، لیکن آنے والے عشروں میں ایسا ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی کہ ہم ڈایناسور جیسے کسی جاندار کو دوبارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں — نہ کسی فلم میں، بلکہ حقیقی زندگی میں۔
سوال یہی ہے:
ڈایناسور کی نئی نسل۔۔۔واپس آنے کو تیار ہے؟ یا ہم خود اس کے لیے تیار ہیں؟