راولا کوٹ میں ہونے والی لڑائی کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟؟؟

“کیا تمہیں جانوروں کا خون صرف تماشہ لگتا ہے؟”
ایک لمحے کے لیے رک کر سوچو… اگر تم سے قیامت کے دن کسی خاموش جانور کے خون کا حساب لیا گیا تو تمہارے پاس کیا جواب ہوگا؟
ہمارے معاشرے میں ایک نئی “تفریح” پنپ رہی ہے — جانوروں کی لڑائیاں!
راولا کوٹ ہو یا پاکستان کا کوئی دوسرا شہر، لوگ جمع ہوتے ہیں، شور ہوتا ہے، پیسہ لگایا جاتا ہے، جیت اور ہار کے نعرے لگتے ہیں… اور درمیان میں دو معصوم جانور خون میں لت پت ہو جاتے ہیں۔ اور سب اس تماشے کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔
اسلام صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا نام نہیں ہے۔
اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے — یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کس طرح انسانوں سے پیش آنا ہے، اور یہ بھی کہ جانوروں سے کیسا سلوک کرنا ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“اللہ کے نزدیک ہر زندہ دل رکھنے والے پر رحم کرنا لازم ہے۔”
اور فرمایا:
“جو جانوروں پر رحم نہیں کرتا، اس پر اللہ بھی رحم نہیں کرے گا۔” (صحیح بخاری)
پھر ہم کیوں اپنے نفس کی خوشی، جوا، اور تفریح کے لیے اُن جانوروں کو استعمال کرتے ہیں جو بے زبان ہیں، بے گناہ ہیں؟
ہم کیوں ان کی تکلیف کو تماشہ بنا دیتے ہیں؟
ہم کیوں ایک تماشائی بن کر ظلم پر تالیاں بجاتے ہیں؟
کیا ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن ایک جانور پر بھی رحم نہیں کر سکتے؟
یہ وہی قوم ہے جو ہر چھوٹے بڑے موقع پر اسلام کا نام لیتی ہے،
لیکن جب جانوروں کو لڑوانے، ان پر ظلم کرنے کی بات آتی ہے تو سب کچھ بھول جاتی ہے۔
یہ صرف جانوروں کی لڑائی نہیں، یہ انسانیت کی شکست ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
“ہر امت کو اُس کے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔” (سورۃ الانعام: 38)
تو پھر جانوروں کو بے رحمی سے زخمی کرنے، اُنہیں مارنے، اور ان کے دکھوں پر خوشی منانے کا حساب ہم کیسے چکا سکیں گے؟
آج فیصلہ کیجیے:
– ظلم کے خلاف کھڑے ہوں
– ایسی تقریبات کا بائیکاٹ کریں
– دوسروں کو سمجھائیں
– اسلام کے اصل پیغام کو اپنائیں
یاد رکھیں، جانور بے زبان ضرور ہیں،
لیکن ان کی فریاد عرش تک پہنچتی ہے۔
اللّٰہ کی قسم، حد ہو گئی ہے!
اب مزید خاموش رہنا، خود جرم ہے۔
کیا آپ بھی اس جرم کا حصہ بننا چاہیں گے؟