“ابتہال ابو سعد – وہ لڑکی جو بولی… اور ساری دنیا سننے پر مجبور ہو گئی”

کبھی کبھی تاریخ وہ لوگ لکھتے ہیں جن کے پاس نہ حکومت ہوتی ہے، نہ فوج، نہ دولت، نہ ہی کوئی اثر و رسوخ — صرف ایک سچ ہوتا ہے اور اس سچ کو کہنے کی ہمت۔ ایسی ہی ایک مثال ہے مراکش کی ایک بہادر اور باشعور بیٹی ابتہال ابو سعد، جس نے نہ صرف اپنے روشن مستقبل کو قربان کیا، بلکہ ظالموں کے چہرے پر وہ آئینہ بھی رکھ دیا جس سے پوری دنیا آنکھیں چرانا چاہتی تھی۔
ابتہال، ہارورڈ یونیورسٹی جیسے دنیا کے ممتاز ترین تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل، اور مائیکروسافٹ جیسی ٹیکنالوجی کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی میں کام کر رہی تھی۔ وہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) ڈیپارٹمنٹ کی رکن تھی — وہی AI جو آج دنیا کے فیصلے کر رہی ہے، انسانی رویے سمجھ رہی ہے، اور افسوسناک حد تک اب جنگوں میں بھی استعمال ہو رہی ہے۔
مائیکروسافٹ کی پچاسویں سالگرہ کی ایک تقریب میں جب دنیا بھر سے ارب پتی، ٹیک جینئس اور اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات جمع تھیں، تب اس ہال میں ایک آواز گونجی، ایک احتجاجی چیخ، جو کسی کو پسند نہ آئی — لیکن سب سننے پر مجبور ہو گئے۔ یہ آواز ابتہال کی تھی۔ وہ کھڑی ہوئی، اپنی نشست سے، اپنی خاموشی سے، اپنے سکون سے اور بولنا شروع کیا۔ اس کی باتوں میں نہ نرمی تھی، نہ بناوٹ۔ وہ ایک کرب میں ڈوبی ہوئی فریاد تھی — سچائی کی گونج۔
اس نے AI کے اس استعمال پر سوال اٹھایا جس کے ذریعے اسرائیل فلسطینی بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس نے اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، ایک شامی مسلمان مصطفیٰ کو للکارا، کہ تمہاری خاموشی، تمہاری شراکت داری بنی ہے ان معصوم لاشوں کی قاتل۔ تم نے اپنے علم اور صلاحیت کو قتل کے ہتھیار بنانے والوں کو سونپ دیا۔
ابتہال کے جملے صرف الفاظ نہ تھے، وہ زخم تھے جو اس نے اپنے ضمیر پر محسوس کیے۔ وہ ہال، جو اس تقریب کے جشن کے لیے سجا تھا، ایک لمحے کو سناٹے کا منظر پیش کرنے لگا۔ بل گیٹس جیسے لوگ بھی اس دھان پان سی لڑکی کی جرأت کے سامنے نظریں چرانے لگے۔
لیکن اس سچائی کی قیمت تھی۔ ایک بڑی، بھاری اور کڑوی قیمت۔
ابتہال کو سیکیورٹی نے ہال سے نکال دیا۔ اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل کر دیے گئے۔ مائیکروسافٹ سے برطرف کر دیا گیا۔ اسے ٹیک انڈسٹری میں ’بلیک لسٹ‘ کر دیا گیا۔ جس روشن مستقبل کو بنانے میں اس نے برسوں کی محنت لگائی تھی، وہ لمحوں میں جل کر راکھ ہو گیا۔ لیکن اس سب کے باوجود، اس نے وہ سچ کہا، جو شاید ہم میں سے کوئی نہیں کہتا۔
ابتہال نے دنیا کو بتایا کہ فلسطینیوں کی لاشوں پر چلنے والی معیشت کو ترقی کہنا فریب ہے، کہ انسانیت کا نام لے کر معصوم بچوں کی جانیں لینے والے دراصل دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ہیں — اور یہ سب خاموشی سے دیکھنے والے دراصل شریکِ جرم ہیں۔
آج ہم سب کو اپنے ضمیر سے سوال کرنا چاہیے — کیا ہم بھی وہ مصطفیٰ ہیں؟ جو خاموش رہ کر اس ظلم کا حصہ بنے ہوئے ہیں؟ کیا ہم وہ تماشائی ہیں جو ابتہال کو تو سلام کرتے ہیں لیکن کوکا کولا اور نیسلے کے پراڈکٹس اب بھی خریدتے ہیں؟ ہم وہ دعویدار ہیں جو فلسطین کی محبت میں روتے ہیں، مگر اس محبت کی قیمت ایک بوتل تک ادا نہیں کرتے۔
ابتہال نے ہمیں آئینہ دکھایا — اب یہ ہم پر ہے کہ ہم چہرہ چھپاتے ہیں یا بدلنے کی جرأت کرتے ہیں۔