کبھی ایسے جہاز ہمارے دریاؤں میں چلتے تھے…

ایک دریا تھا، جو بہتا تھا…

کبھی ہمارے دریا جیتے جاگتے ہوا کرتے تھے۔ ان میں صرف پانی نہیں بہتا تھا، ایک تہذیب، ایک ثقافت، ایک طرزِ زندگی بھی ساتھ بہتی تھی۔ انہی دریاؤں پر بڑے بڑے تین منزلہ جہاز چلا کرتے تھے۔ نچلی منزل پر جانور، درمیانی پر عام لوگ اور اوپری منزل پر وہ خواص جنہیں ٹکٹ مہنگی پڑتی، مگر انعام قدرتی مناظر اور کھلے آسمان کا ہوتا۔ انہی جہازوں میں ایک مشہور جہاز تھا — SS Jehlum۔ لوگ اسے اپنا “ٹائیٹینک” کہتے تھے۔

اب خبر آئی ہے کہ بھکر کے قریب وہی دریا جو کبھی فراٹے بھرتا تھا، مکمل طور پر سوکھ گیا ہے۔ اتنا کہ اب وہاں سے لوگ پیدل گزر جاتے ہیں۔ دل جیسے ایک لمحے کو رُک سا جاتا ہے۔ وہ دریا جس پر میری ماں ہمیں لے کر سفر کرتی تھیں، وہ سفر جو تہوار جیسا ہوتا تھا — اب صرف دھندلی یاد بن کر رہ گیا ہے۔

میں بچپن میں اپنی اماں کے ساتھ بھکر اسٹیشن سے دریاخان جاتا، پھر تانگہ، پھر پیر سلطان کے مزار پر اتر کر، جہاز یا لانچ کے ذریعے ڈیرہ کا سفر ہوتا۔ وہ منظر آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ بارشوں میں پانی اتنا زیادہ ہوتا کہ دریا کنارے سے لے کر ڈیرہ تک سب کچھ پانی ہی پانی ہوتا۔ سردیوں میں دریا کئی شاخوں میں بٹ جاتا، اور ہر شاخ پر کشتیوں کے پل بن جاتے۔ پل پر نقارے بجتے، ایک طرف کا نقارہ بجتا تو دوسری طرف کا قافلہ رک جاتا۔ وہی اس وقت کا “ٹریفک سگنل” تھا۔

جہاز کا کیپٹن جانو کپتان ہوتا تھا، اور اس کے ساتھ عملہ بانس پکڑے رہتا۔ وہ بانس سے پانی کی گہرائی ناپتے اور آوازیں دیتے: “پندرہ فٹ اے! بارہ فٹ اے!”، تاکہ جہاز کہیں ریت میں نہ اٹک جائے۔ نیچے جانور، درمیان میں مسافر، اور اوپر خواص۔ سب کو بھٹی پر پکی دال اور مانے ملتے، جیسے آج ہوائی جہاز میں کھانا ملتا ہے۔ جو اپنی مرضی کا کھانا چاہتے، وہ پیسے دے کر الگ بنوا لیتے۔

پھر پل بننے لگے، سڑکیں بنیں، اور آہستہ آہستہ یہ عظیم جہاز متروک ہونے لگے۔ SS Jehlum بھی 1980 کی ایک طوفانی رات کو دریا کنارے ہی ڈوب گیا۔ لوگ آج بھی اسے ڈیرہ اسماعیل خان کا “ٹائٹینک” کہتے ہیں۔

کچھ سال پہلے جب میں سعودیہ سے لوٹا، دل میں خواہش تھی کہ وہ سب کچھ دوبارہ دیکھوں۔ بھکر، دریا، دوست، پرانی یادیں۔ میں جیدو لالہ کے ساتھ دریا کنارے پہنچا، اس نے مجھے جانو کپتان کے پوتے سے ملوایا۔ ہم اس کی چھوٹی کشتی میں سیر کر رہے تھے، جہاں صرف خاموشی تھی۔ نہ وہ جوش، نہ وہ ہجوم، نہ وہ گہرائی۔ میں نے کیمرے میں تصویریں لیں، البم دی، اور خاموشی سے لوٹ آیا۔

اب وہ سب قصے ہو چکے ہیں۔ دریا سوکھ چکے، جہاز ڈوب چکے، پرندے دوسرے دیس جا چکے۔ صرف ہم رہ گئے ہیں — یادوں کے محافظ، خاموش داستان گو۔

“زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے…”

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں