آسٹریلیا کے ایک پادری، گولڈ ڈیوڈ، جنہوں نے چرچ میں 45 سال تک خدمات انجام دیں، نے اسلام قبول کر کے اپنا نام عبد الرحمٰن رکھ لیا ہے

سچائی کی تلاش — ایک پادری کا روحانی سفر اسلام تک
یہ کہانی ایک ایسے انسان کی ہے جس نے عمر بھر چرچ میں عبادت کی، مذہب کی خدمت کی، اور لوگوں کی رہنمائی کی۔ آسٹریلیا کے گولڈ ڈیوڈ نے 45 سال تک ایک پادری کی حیثیت سے مسیحی عقیدے میں گہری وابستگی کے ساتھ وقت گزارا۔ مگر زندگی کا ایک لمحہ ایسا آیا، جب دل نے نئی روشنی کی خواہش کی، اور روح نے سچائی کی پکار سنی۔ وہ لمحہ نہ صرف ان کی زندگی کو بدلنے والا ثابت ہوا، بلکہ لاکھوں دلوں کے لیے ایک الہام بن گیا۔

یہ واقعہ پرتھ شہر میں پیش آیا، جہاں گولڈ ڈیوڈ اپنے بہنوئی کے جنازے میں شرکت کے لیے پہنچے تھے۔ انہوں نے جو ہوٹل بک کیا، وہ شہر کی مرکزی مسجد سے محض چند قدم کے فاصلے پر تھا۔ مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے، دل میں ایک عجیب سی کشش محسوس ہوئی۔ یوں لگا جیسے کوئی انہیں مسجد کے دروازے کی طرف بلا رہا ہو۔ آخر وہ مسجد میں داخل ہوئے، جہاں ان کی ملاقات امام مسجد سے ہوئی۔ امام نے نہایت محبت و احترام سے ان سے گفتگو کی اور انہیں قرآن مجید کا ایک نسخہ بطور تحفہ پیش کیا۔

یہ قرآن اُن کے لیے کوئی اجنبی کتاب نہ تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ سالوں سے ان کی کتابوں کی الماری میں ایک قرآن موجود تھا، مگر کبھی اسے کھول کر غور سے نہیں پڑھا۔ اس بار معاملہ مختلف تھا۔ وہ ہوٹل واپس لوٹے، خاموشی سے سجدہ کیا، اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ انہیں سچائی دکھائے، وہ سچائی جس کی انہیں برسوں سے تلاش تھی۔ پھر انہوں نے قرآن کو کھولا، اور ایک ایک آیت کو دل سے پڑھنا شروع کیا۔

یہ محض الفاظ نہ تھے، بلکہ دل کی گہرائیوں کو چھونے والی صدائیں تھیں۔ ہر سطر جیسے کوئی پردہ ہٹا رہی ہو۔ انہیں محسوس ہونے لگا کہ یہ کلام صرف ایک مذہبی کتاب نہیں، بلکہ انسان کی عقل، احساس اور روح کو جگانے والی زندہ حقیقت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن نے انہیں عقلی، جذباتی اور روحانی ہر سطح پر قائل کر دیا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ یہ اللہ کا سچا کلام ہے، اور یہی وہ ہدایت ہے جس کی انہیں ہمیشہ تلاش رہی۔

تسمانیہ واپس جا کر انہوں نے اپنے بشپ کو ایک خط لکھا اور اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ پھر امام سے رابطہ کر کے فون پر کلمہ شہادت پڑھا، اور یوں گولڈ ڈیوڈ، عبد الرحمٰن بن گئے۔ کچھ دن بعد ہوبارٹ کی مسجد میں، جمعے کے دن، انہوں نے پوری مسلم کمیونٹی کے سامنے باقاعدہ اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔

عبد الرحمٰن اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کا مطلب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو چھوڑ دینا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسلام حضرت عیسیٰؑ کی بھی عزت کرتا ہے، لیکن اللہ کو ایک، بے نیاز، اور بغیر شریک مانتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: “میں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا تھا کہ اللہ تین نہیں بلکہ ایک ہے، اس کا کوئی بیٹا نہیں، اور اس کا آخری پیغام قرآن ہے، جو ہر انسان کے لیے ہے۔”

اسلام قبول کرنے کے بعد، انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک نیا فیس بک پیج بنایا، جس پر انہوں نے شیخ زید گرینڈ مسجد کی تصویر پروفائل پر لگائی۔ انہوں نے لکھا: “میں نے زندگی بھر اللہ کے امن کی تلاش میں وقت گزارا، اور قرآن نے مجھے سکھایا کہ امن اور سچائی صرف اللہ میں ہے۔”

عبد الرحمٰن کی یہ کہانی صرف ایک مذہب تبدیل کرنے کی داستان نہیں، بلکہ ایک روح کی سچائی کی طرف واپسی کی داستان ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سچائی ہر دل میں کہیں نہ کہیں موجود ہوتی ہے، بس کبھی کبھار ایک لمحہ، ایک ملاقات، یا ایک کتاب کافی ہوتی ہے اسے جگانے کے لیے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں