یوکرین پر روس کا دہرا میزائل حملہ، 34 افراد ہلاک: ’مذاکرات سے بمباری نہیں رُکی‘

روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازعے نے ایک بار پھر پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہفتے کے روز روس نے یوکرین پر ایک دہرا میزائل حملہ کیا جس میں 34 بے گناہ شہریوں کی جان چلی گئی۔ یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب بین الاقوامی سطح پر جنگ بندی اور مذاکرات کی باتیں ہو رہی تھیں۔ یوکرین کے مختلف شہروں میں صبح سویرے کیے گئے ان حملوں نے عوام کو خوف، غم اور غصے میں مبتلا کر دیا ہے۔

میزائل حملوں نے کییف، خارکیف، اور ڈنیپرو جیسے اہم شہروں کو ہدف بنایا۔ رہائشی عمارتیں، ہسپتال، مارکیٹیں اور سکول اس بمباری کی زد میں آئے۔ مقامی لوگوں کے مطابق کچھ عمارتیں مکمل طور پر زمیں بوس ہو گئیں اور امدادی کارکنوں کو ملبے سے لاشیں نکالنے میں کئی گھنٹے لگے۔ ایک ماں نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کا بچہ اسکول کے لیے تیار ہو رہا تھا جب میزائل آکر ان کے گھر پر گرا۔ ایسے بے شمار دلخراش مناظر نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

اقوام متحدہ اور یورپی ممالک کی جانب سے ان حملوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ محض مذمت سے کیا جنگ رُک سکتی ہے؟ دنیا نے دیکھا کہ مذاکرات کے میز پر بیٹھنے سے پہلے یا بعد میں اکثر بمباری کر دی جاتی ہے، جیسے کوئی پیغام دینا ہو کہ “بات چیت ہماری مرضی سے ہو گی، ورنہ جنگ جاری رہے گی۔”

یوکرین کے صدر نے اس حملے کے بعد کہا کہ دشمن امن کا نہیں، اپنی شرائط کا خواہاں ہے۔ جب بھی ہم بات چیت کی کوشش کرتے ہیں، روس میزائلوں کے ذریعے جواب دیتا ہے۔ اس صورتحال نے یوکرین کے عوام کو مایوسی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ان کا اعتماد مذاکرات پر سے اٹھتا جا رہا ہے۔

دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ اس نے صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ مگر زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ شہروں کی تباہی، اسکولوں اور ہسپتالوں پر حملے، یہ سب جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ بین الاقوامی ماہرین بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ روس ان حملوں کے ذریعے نہ صرف یوکرین کو جھکانا چاہتا ہے بلکہ دنیا کو بھی اپنی طاقت دکھا رہا ہے۔

اس حملے نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ صرف مذاکرات کافی نہیں، جب تک دونوں فریقین میں سنجیدگی نہ ہو۔ یوکرین کی عوام کو صرف بمباری سے نہیں، بلکہ بھوک، غربت، بے گھری، اور نفسیاتی دباؤ سے بھی گزرنا پڑ رہا ہے۔ بچوں کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے، بزرگ بے سہارا ہیں، اور نوجوان بے مقصد۔

جب تک عالمی طاقتیں اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات نہیں اٹھاتیں، تب تک ایسے خونریز واقعات جاری رہیں گے۔ یوکرین کے لیے یہ صرف جنگ نہیں، بقا کی لڑائی ہے۔ ہر حملہ ان کے صبر، حوصلے اور ایمان کا امتحان بن گیا ہے۔

اس جنگ کے اثرات صرف یوکرین تک محدود نہیں رہیں گے۔ عالمی منڈی میں اناج کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، گیس اور تیل کی سپلائی متاثر ہو رہی ہے، اور مہنگائی کی نئی لہر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اس صورتحال کا خاتمہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب دنیا امن کے حق میں ایک ساتھ آواز بلند کرے اور ظالم کو کھل کر ظالم کہے۔

دنیا کو اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ صرف مذمتی بیانات سے کام چلائے گی یا واقعی کوئی عملی قدم اٹھائے گی۔ کیونکہ اگر آج خاموشی اختیار کی گئی تو کل یہ آگ کسی اور دروازے پر بھی دستک دے سکتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں