بحیرہ عرب نے سندھ کی زمین نگلنا شروع کر دی.

بحیرہ عرب کے پیچھے ہٹتے کنارے، سندھ کی ڈوبتی زمین

سندھ، جو ہزاروں سال سے تہذیب، زرخیزی اور دریا کی پہچان رکھتا ہے، آج خود اپنے وجود کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ یہاں کی سرزمین، جو کبھی دریائے سندھ کے کناروں پر لہلاتی فصلوں اور گھنے مینگرووز سے جانی جاتی تھی، اب آہستہ آہستہ بحیرہ عرب کی بے رحم موجوں میں تحلیل ہو رہی ہے۔

یہ کوئی قیامت خیز طوفان نہیں، نہ ہی ایک دن میں آنے والی تباہی۔ یہ ایک خاموش، مگر مسلسل حملہ ہے جو زمین کو اندر ہی اندر چاٹ رہا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں سندھ کے کئی دیہات اور زرعی علاقے سمندر کی نظر ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر ٹھٹھہ، بدین، کیٹی بندر اور سجاول جیسے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جہاں پانی پہلے زمین کے کنارے چُھوتا تھا، اب گھروں کی دہلیز پر آ چکا ہے۔

کبھی ان علاقوں کے لوگ سمندر کو اپنی زندگی کی کمائی سمجھتے تھے۔ ماہی گیری، کھارے پانی کی زراعت اور ساحلی تجارت ان کا ذریعہ معاش تھی۔ مگر اب وہی سمندر ان کے لیے خطرے کی علامت بن چکا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے سمندر کی سطح کو اتنا بلند کر دیا ہے کہ زمین کا قدرتی توازن بگڑ چکا ہے۔ دریائے سندھ کا پانی سمندر تک پہنچتے پہنچتے تھک جاتا ہے، اور جب دریا کا پانی کم ہو، تو سمندر کا نمکین پانی اندر کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب زرخیز زمین بنجر ہو جاتی ہے، میٹھا پانی کھارا ہو جاتا ہے، اور لوگ اپنی جڑیں چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

کبھی بدین کے وہ دیہات جہاں کھیتوں میں ہل چلتے تھے، آج صرف پانی کی سطح پر کچرے کی لکیر بن چکے ہیں۔ کئی جگہوں پر پرانے مکانوں کی بنیادیں پانی کے اندر جھانکتی ہیں، جیسے ماضی کی گواہی دے رہی ہوں کہ یہاں کبھی زندگی آباد تھی۔

یہ سب کچھ صرف فطری آفت نہیں، انسانی بے حسی بھی اس میں برابر کی شریک ہے۔ دریائے سندھ پر بے تحاشا بند باندھ کر پانی کا بہاؤ محدود کر دیا گیا۔ مینگرووز، جو ساحلی علاقوں کو سمندری کٹاؤ سے بچاتے تھے، کاٹے جا چکے ہیں۔ زمین کو بچانے کے منصوبے صرف فائلوں میں دفن ہیں، اور متاثرہ لوگوں کی آوازیں اکثر حکومتی راہداریوں میں گم ہو جاتی ہیں۔

خطرہ یہ ہے کہ اگر یہ عمل اسی طرح جاری رہا تو نہ صرف زمین ختم ہو گی، بلکہ تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا ایک پورا باب سمندر کے نیچے دفن ہو جائے گا۔ سندھ کی مٹی صرف زمین کا ٹکڑا نہیں، یہ ماضی کا آئینہ اور مستقبل کی امید ہے۔ اگر آج ہم نے اس کے تحفظ کے لیے قدم نہ اٹھایا تو کل ہماری نسلیں صرف تصویروں میں ان علاقوں کو دیکھ سکیں گی۔

اب بھی وقت ہے کہ حکومت، ادارے اور عوام مل کر اس بحران کا سامنا کریں۔ مینگرووز کی دوبارہ شجرکاری، دریا کے قدرتی بہاؤ کی بحالی اور ساحلی بستیوں کو بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ کیونکہ اگر زمین بچی، تو کل بھی بچ سکتا ہے، اور اگر زمین ہی نہ رہی، تو ہم کیا بچائیں گے؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں