ہیروشیما کی خاموش چیخ — ایک عمارت جو قیامت کے بعد بھی کھڑی رہی

جب تاریخ کا سب سے ہولناک لمحہ زمین پر اترا، تو پورا ہیروشیما لمحوں میں مٹی اور راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ ہر طرف آگ، چیخیں، بکھرے ہوئے وجود اور جلی ہوئی عمارتیں تھیں۔ لیکن ان سب کے درمیان ایک عمارت ایسی تھی جو خاموشی سے کھڑی رہی، جیسے قیامت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے یہ پوچھ رہی ہو — کیا یہ سب کچھ کافی نہیں تھا؟

یہ عمارت، جو کبھی ہیروشیما پریفیکچرل انڈسٹریل پروموشن ہال کہلاتی تھی، آج دنیا اسے ایٹمک بم ڈوم کے نام سے جانتی ہے۔ وہ مقام جو ایٹمی بم کے مرکز سے محض دو سو میٹر کے فاصلے پر تھا، جہاں ہر چیز لمحوں میں فنا ہو گئی، وہاں یہ عمارت اپنی جگہ قائم رہی۔ اس کے ٹوٹے ہوئے ستون، جلی ہوئی اینٹیں اور گنبد نما چھت آج بھی ویسے ہی موجود ہیں، جیسے وہ لمحہ آج بھی وقت کی دیوار پر نقش ہو۔

یہ صرف ایک عمارت نہیں، یہ انسانی حماقت کا آئینہ ہے، جنگ کی وحشت کا نوحہ ہے، اور امن کی تلاش میں دنیا کے درد کی تصویر ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔ کچھ حیرت میں، کچھ افسوس میں، اور کچھ اس امید کے ساتھ کہ شاید یہ منظر انہیں انسانیت کا مطلب سمجھا دے۔ یہ عمارت بولتی نہیں، لیکن اس کی خاموشی چیخ سے بھی زیادہ گونج رکھتی ہے۔

ہیروشیما کی تباہی کے بعد، جب دنیا نے آنکھیں کھولیں، تب جاپانی قوم نے اس درد کو نفرت میں نہیں، سبق میں بدلا۔ اس ملبے کو مٹانے کے بجائے محفوظ رکھا گیا تاکہ آنے والی نسلیں دیکھ سکیں کہ جنگ جیتنے کا مطلب صرف ہار ہوتی ہے۔ 1996 میں جب یونیسکو نے اسے ورلڈ ہیریٹیج سائٹ قرار دیا، تو گویا پوری دنیا نے تسلیم کر لیا کہ یہ عمارت صرف جاپان کی نہیں، پوری انسانیت کی یادگار ہے۔

ایٹمک بم ڈوم کے سامنے کھڑے ہو کر دل میں ایک عجب سی سنسناہٹ پیدا ہوتی ہے۔ نہ صرف اس لیے کہ یہاں ہزاروں لوگ جان سے گئے، بلکہ اس لیے بھی کہ یہاں آج بھی وہ لمحہ سانس لیتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوا۔ جیسے ہوا میں درد رچا ہو، جیسے اینٹوں میں دعائیں دفن ہوں۔

یہ عمارت ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے کھڑی ہے کہ انسان کتنا طاقتور ہو جائے، اگر اُس کی طاقت میں رحم نہ ہو تو وہ خود اپنا دشمن بن جاتا ہے۔ شاید یہی وہ پیغام ہے جو راکھ سے اٹھنے والی یہ خاموش گواہی دنیا کو دینا چاہتی ہے — کہ امن ایک انتخاب ہے، اور وہ ہمیں آج ہی کرنا ہوگا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں