پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کے پسِ پردہ ممکنہ عوامل

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک طویل اور پیچیدہ تعلق کی تاریخ ہے، جو ثقافت، سرحد، مذہب اور سیاست کے کئی پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگ، بدامنی اور معاشی مسائل کے باعث لاکھوں افغان شہریوں نے پاکستان میں پناہ لی۔ لیکن حالیہ دنوں میں پاکستان کی حکومت کی جانب سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کے فیصلے نے نہ صرف بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل کی ہے بلکہ اندرونِ ملک بھی بحث و مباحثے کو جنم دیا ہے۔ اس اقدام کے پیچھے کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں جن کا تعلق سیکیورٹی، معیشت، داخلی سیاست اور خارجہ تعلقات سے جڑا ہوا ہے۔
سب سے پہلی اور نمایاں وجہ سیکیورٹی کے خدشات ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغان سرزمین پر موجود شدت پسند گروہوں کی جانب سے ملک میں دہشت گرد کارروائیوں کا الزام لگایا ہے۔ ایسے میں افغان پناہ گزینوں کی موجودگی کو بعض عناصر کے لیے سہولت کار تصور کیا جاتا ہے، جس سے پاکستان کی ریاستی سلامتی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ حکومتی مؤقف ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی نشاندہی اور ملک بدری سیکیورٹی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔
دوسری جانب معیشت بھی ایک اہم عنصر ہے۔ پاکستان خود مہنگائی، بے روزگاری اور محدود وسائل جیسے سنگین معاشی مسائل کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں حکومت یہ سمجھتی ہے کہ لاکھوں غیر قانونی مہاجرین کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں۔ ان پناہ گزینوں کی موجودگی مقامی روزگار کے مواقع پر دباؤ ڈالتی ہے، جبکہ صحت، تعلیم اور دیگر سہولیات پر بھی اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ حکام کے مطابق، ملک کے محدود وسائل پہلے ہی پاکستانی شہریوں کے لیے ناکافی ہوتے جا رہے ہیں۔
داخلی سیاست بھی اس فیصلے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان میں بدلتی ہوئی حکومتیں اور سیاسی عدم استحکام کے باعث پالیسیوں میں سختی کا رجحان بڑھا ہے۔ عوامی دباؤ، بالخصوص ان علاقوں میں جہاں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد آباد ہے، حکومت پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ اس معاملے پر واضح اور مضبوط مؤقف اختیار کرے۔ افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی بعض اوقات مقامی ووٹرز کو مطمئن کرنے کا سیاسی حربہ بھی بن جاتی ہے۔
اس کے علاوہ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی نوعیت بھی اس عمل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کابل میں طالبان حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آ چکے ہیں۔ سرحدی کشیدگیاں، باہمی اعتماد کا فقدان، اور دوطرفہ تعاون کی کمی اس فیصلے کے محرکات میں شامل ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات، ایسی کارروائیاں سفارتی دباؤ ڈالنے کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہیں تاکہ پڑوسی ملک اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لے۔
یہ تمام عوامل مل کر ایک پیچیدہ صورتحال کو جنم دیتے ہیں جس میں پاکستان کی حکومت کو اپنی داخلی ضروریات اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے تقاضوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ تاہم، اس عمل میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے افغان پناہ گزین ہیں، جن میں بڑی تعداد عورتوں، بچوں اور بزرگوں کی ہے، جو ایک بار پھر بے یقینی اور خوف کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے میں بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نہ صرف انسانی بنیادوں پر مدد فراہم کرے بلکہ اس مسئلے کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرے۔پاکستان افغان پناہ گزین کو زبردستی ملک بدر کرنے سے گریز کرے: اقوامِ متحدہ