155 ارب ڈالر کا فرق: ٹرمپ کے اخراجات بائیڈن سے کہیں زیادہ

جب امریکی سیاست اور معیشت کی بات آتی ہے تو اخراجات، بچت اور قرضے ہمیشہ مرکزِ گفتگو رہتے ہیں۔ حالیہ تجزیاتی رپورٹ میں جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، وہ خاصے حیران کن ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اتنے ہی عرصے میں، جتنا وقت بائیڈن انتظامیہ کو ملا تھا، 155 ارب ڈالر زیادہ خرچ کیے۔ یعنی اگر ہم دونوں ادوار کا موازنہ کریں، تو ٹرمپ کی حکومت نے بچت کے تمام دعووں کے باوجود قرضے میں اضافہ کیا ہے۔
یہ دعویٰ کہ اخراجات کم ہو رہے ہیں یا حکومتی کفایت شعاری کے اقدامات سود مند ثابت ہو رہے ہیں، خود متنازع بنتے جا رہے ہیں۔ ایلون مسک، جو اس وقت محکمہ برائے سرکاری کارکردگی (Department of Government Efficiency) کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے ادارے نے اب تک 150 ارب ڈالر کی بچت کی ہے۔ لیکن یہ بھی واضح نہیں کہ یہ بچت حقیقی ہے یا محض کاغذی دعویٰ۔ جب بھی مسک ان اخراجات میں کمی کے ثبوت یا ’رسیدیں‘ پیش کرتے ہیں، ان میں کئی غلطیاں اور تضادات دیکھنے میں آتے ہیں۔
ابتداء میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ سرکاری اداروں اور سہولیات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کر کے 2000 ارب ڈالر کی بچت کریں گے۔ بعد میں یہ ہدف 1000 ارب کر دیا گیا، اور اب یہ رقم گھٹتے گھٹتے صرف چند سو ارب تک محدود ہو چکی ہے۔ دوسری جانب، اسی مدت میں وفاقی قرضے میں مزید پانچ ارب ڈالر کا اضافہ بھی ہو چکا ہے، حالانکہ ہزاروں سرکاری ملازمین کو فارغ کر دیا گیا، درجنوں ادارے بند کیے گئے، کئی معاہدے منسوخ کیے گئے اور وفاقی خدمات کو محدود کیا گیا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ان بڑھتے ہوئے اخراجات کا انکشاف وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں ہوا، جس میں امریکی محکمہ خزانہ کی یومیہ مالیاتی رپورٹس کا تجزیہ شامل تھا۔ رپورٹ کے مطابق، اخراجات کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تمام پس منظر کے باوجود، ٹرمپ اور ریپبلکن قیادت اس وقت 5000 ارب ڈالر کی ٹیکس چھوٹ پر بات چیت کر رہے ہیں، جو کہ آئندہ دس برسوں میں قومی قرضے کو مزید 5.7 ہزار ارب ڈالر بڑھا سکتی ہے۔ جبکہ فی الحال یہ قرضہ پہلے ہی 37.3 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
وفاقی حکومت کے بیشتر اخراجات سوشل سکیورٹی اور صحت جیسے سماجی تحفظ کے شعبوں میں ہیں۔ جیسے جیسے آبادی کی عمر بڑھ رہی ہے اور زیادہ لوگ ریٹائر ہو رہے ہیں، ان پروگراموں پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی کے باعث سوشل سکیورٹی کی ادائیگیاں بھی بڑھ چکی ہیں۔ ایک اور بڑا چیلنج وفاقی قرضے پر سود کی ادائیگی ہے، جو بجٹ کا بہت بڑا حصہ کھا رہا ہے۔
یہ تمام اعداد و شمار ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں: دعوے خواہ جتنے بھی بڑے ہوں، زمینی حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کفایت شعاری اور مالی نظم و ضبط کے دعوے اگر حقیقی نتائج نہ دیں، تو وہ صرف سیاسی بیانیہ بن کر رہ جاتے ہیں۔