“ماں کی آخری خواہش پوری کرنا اگر جرم ہے… تو پھر انصاف کہاں مر گیا؟”

پھالیہ کی فضا ان دنوں خاموش نہیں، بلکہ چیخ رہی ہے۔ وہاں ایک ماں نے اپنی آخری سانسوں میں اپنے بیٹے سے بس اتنی سی خواہش کی تھی کہ اس کا جنازہ ایک خاص عالم دین پڑھائیں۔ بیٹے نے ماں کی بات کو حکم جانا، اور وفاداری کے جذبے سے وہ عالم دین دوسرے گاؤں سے بلا لیا۔ لیکن یہ سادہ سا عمل، شاید کچھ طاقتور لوگوں کو برداشت نہ ہوا۔
بااثر افراد کو اس بات پر اتنا غصہ آیا کہ اس بیٹے کو، جو خود ایک امام مسجد ہے، دن دہاڑے مار مار کر ادھ موا کر دیا گیا۔ گاؤں کی گلیوں میں اس کی چیخیں گونجتی رہیں، لیکن کسی نے نہ روکا، نہ ٹوکا۔ اس کی داڑھی کا تقدس پامال ہوا، اس کی پگڑی خاک میں ملی، اور اُس کے تقدس کو روند ڈالا گیا۔ وہ شخص جو دن رات لوگوں کو دین سکھاتا ہے، آج خود بے بسی کی تصویر بن چکا ہے۔
ظلم صرف مار پیٹ پر ختم نہیں ہوا۔ اب اسے دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ اگر انصاف کے لیے آواز اٹھائی، تو اس کا مکان مسمار کر دیا جائے گا، اسے گاؤں بدر کر دیا جائے گا، اور زندگی کو مزید تنگ کر دیا جائے گا۔ وہ اب خوف کے سائے میں سانس لے رہا ہے، لیکن ہار ماننے کو تیار نہیں۔
اس مظلوم امام نے وزیر اعلیٰ پنجاب اور ڈی پی او منڈی بہاءالدین سے اپیل کی ہے کہ اسے انصاف دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا غریب کی آواز سنی جائے گی؟ کیا ایک ماں کی وصیت پوری کرنا واقعی اتنا بڑا جرم ہے؟ یا پھر یہ معاشرہ صرف طاقتوروں کا ہے، جہاں کمزور کو صرف رگیدا جاتا ہے؟
یہ کہانی صرف پھالیہ کے ایک شخص کی نہیں، بلکہ ہر اُس انسان کی ہے جو ماں کے حکم کو عزت سمجھتا ہے، اور ہر اُس غریب کی ہے جو حق کے لیے آواز اٹھاتا ہے۔ ظلم کے خلاف یہ فریاد خاموش نہ ہونے دیں۔