“جب اسرائیل نے ہتھیار اٹھانے چاہے، تو ٹرمپ نے مذاکرات کی میز بچھا دی — کیا یہ امن کی کوشش تھی یا طاقت کا نیا کھیل؟”

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کو اکثر جارحانہ اور غیر متوقع کہا جاتا ہے، مگر ایران کے حوالے سے ان کا ایک حالیہ فیصلہ دنیا بھر میں حیرت کا باعث بنا۔ اطلاعات کے مطابق، جب اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی تیاری مکمل کر لی تھی، تو ٹرمپ نے مداخلت کرتے ہوئے اس کارروائی کو وقتی طور پر روک دیا۔ اس کے بجائے، انہوں نے ایران کے ساتھ سفارتی سطح پر جوہری معاہدے کی بحالی اور مذاکرات کی راہ اپنانے کو ترجیح دی۔
یہ فیصلہ اُس وقت آیا جب مشرق وسطیٰ کشیدگی کی آگ میں جھلس رہا تھا، اور عالمی طاقتیں ایران کے جوہری عزائم سے تشویش کا شکار تھیں۔ اسرائیل، جو ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، طویل عرصے سے اس کے خلاف عسکری کارروائی کے لیے پر تول رہا تھا۔ مگر ٹرمپ نے اس موقع پر جنگ کو نہیں، بلکہ سفارت کاری کو ترجیح دی — اور یہی وہ موڑ تھا جس نے بین الاقوامی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی۔
کیا یہ فیصلہ واقعی خطے میں امن قائم کرنے کی سنجیدہ کوشش تھی؟ یا پھر یہ ایک ایسی چال تھی جو امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں طویل جنگی دلدل سے نکالنے کے لیے چلی گئی؟ ناقدین کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسی ہمیشہ سودے بازی کے اصول پر مبنی رہی ہے۔ وہ زور و زبردستی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر مخالف کو لاتے ہیں، تاکہ بہتر شرائط پر معاہدہ حاصل کیا جا سکے۔
ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ — جسے اوباما کے دور میں JCPOA کے نام سے جانا جاتا تھا — ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی ختم کر دیا تھا۔ لیکن اب وہی صدر دوبارہ ایران سے بات چیت کی خواہش ظاہر کر رہا ہے۔ اس یو ٹرن کی وجوہات میں امریکہ کی داخلی معیشت، عالمی دباؤ، اور مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی موجودگی کے منفی اثرات شامل ہو سکتے ہیں۔
دوسری طرف، اسرائیل اس فیصلے سے خوش نہیں۔ اس کے لیے ایران کا جوہری پروگرام ایک ریڈ لائن ہے، جسے پار کرنا ایک ناقابلِ برداشت خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ ٹرمپ کے فیصلے نے وقتی طور پر خطے کو ایک بڑی جنگ سے بچا لیا، مگر ساتھ ہی اسرائیل اور امریکہ کے درمیان خفیہ کشیدگی کو بھی ہوا دی۔
اس واقعے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ عالمی امن کے فیصلے کیا واقعتاً امن کے لیے کیے جاتے ہیں، یا پھر وہ محض سیاسی چالوں کا حصہ ہوتے ہیں؟ ٹرمپ کا یہ قدم وقتی طور پر دانشمندانہ دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے طویل المدتی اثرات کیا ہوں گے، یہ وقت ہی بتائے گا۔
فی الحال، ایک اور جنگ کا خطرہ ٹل چکا ہے — اور دنیا ایک بار پھر امید اور بے یقینی کے درمیان سانس لے رہی ہے۔