: “یمن پر حملہ: حقیقت کیا ہے؟ عوام یا حوثی؟”

“ہم حوثیوں کو اقتصادی طور پر نشانہ بنا رہے ہیں، یمنی عوام کو نہیں۔”
یہ بیان ہے امریکی سینٹرل کمانڈ کا، جو یمن کی ایک اہم بندرگاہ پر حالیہ حملے کے بعد سامنے آیا۔ لیکن جب حملہ بندرگاہ پر ہوتا ہے — وہ جگہ جہاں سے خوراک، دوائیں اور ضروریاتِ زندگی کی اشیاء آتی ہیں — تو کیا فرق کرنا واقعی ممکن ہوتا ہے کہ متاثر صرف “حوثی” ہوں گے، نہ کہ عام شہری؟
حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب حوثیوں نے بحیرہ احمر، باب المندب اور خلیج عدن میں امریکی اور تجارتی جہازوں کو نشانہ بنایا۔ واشنگٹن کا مؤقف ہے کہ یہ کارروائی عالمی بحری تجارت کے تحفظ کے لیے کی گئی، اور اس کا مقصد صرف حوثیوں کی کارروائیوں کو محدود کرنا ہے۔
لیکن حوثیوں کی نظر میں یہ حملہ یمن کی خودمختاری پر کھلی چوٹ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر یہ حملے کر رہے تھے، اور امریکا اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے انہیں خاموش کرانا چاہتا ہے۔ حوثی ترجمانوں نے کہا ہے کہ وہ دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور امریکی اقدامات کو جارحیت تصور کرتے ہیں۔
ادھر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور علاقائی مبصرین اس بات پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ ان حملوں سے سب سے زیادہ نقصان کسے ہو رہا ہے؟ اگر بندرگاہیں متاثر ہوتی ہیں، تو یمن کے وہ لاکھوں شہری جو پہلے ہی قحط، بیماری اور جنگ سے متاثر ہیں، ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ واقعی صرف “دہشت گردی” کے خلاف جنگ ہے، یا پھر مشرقِ وسطیٰ میں طاقت اور اثر و رسوخ کی ایک بڑی گیم کا حصہ؟ کیا یہ حملے حوثیوں کو کمزور کریں گے یا پھر ان کے بیانیے کو مزید طاقت دیں گے؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا ان کارروائیوں سے یمن کا عام شہری ایک بار پھر پسِ منظر میں چلا جائے گا؟
یہ سب سوالات ابھی جواب طلب ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے — مشرقِ وسطیٰ کی اس شطرنج میں ہر چال، ہر وار، کسی نہ کسی عام انسان کی زندگی بدل دیتا ہے۔