نہم جماعت کے داخلے میں عمر کی حد: ایک قدم آگے یا رکاوٹ؟

حال ہی میں تعلیمی اداروں کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا کہ وہ بچے جو یکم جون 2014 کے بعد پیدا ہوئے ہیں، انہیں نہم جماعت میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ فیصلہ بظاہر ایک سادہ سی انتظامی پالیسی لگتی ہے، مگر درحقیقت اس نے والدین، اساتذہ، اور تعلیمی ماہرین کے درمیان کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔
تعلیم صرف نصاب اور جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک مکمل تربیتی عمل ہے جس میں بچے کی ذہنی، جسمانی اور جذباتی نشوونما کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے۔ اسی تناظر میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ کم عمر بچے جب سخت اور مشکل مضامین جیسے سائنس، ریاضی یا بورڈ کے نصاب سے دوچار ہوتے ہیں تو ان پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ مقررہ عمر کی حد رکھ کر شاید اس دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ بچے اپنی عمر اور ذہنی پختگی کے مطابق تعلیم حاصل کریں۔
مگر اس پالیسی کے کچھ منفی اثرات بھی واضح ہونے لگے ہیں۔ بہت سے بچے جنہوں نے اپنی ذہانت اور قابلیت کی بنیاد پر جلدی جماعتیں مکمل کیں، اب محض عمر کی بنیاد پر نہم میں داخلے سے محروم رہ جائیں گے۔ ایسے بچوں کے والدین مایوس اور پریشان ہیں کہ ان کا بچہ اپنی کارکردگی کے باوجود آگے کیوں نہیں بڑھ سکتا۔ اس سے نہ صرف بچوں کا اعتماد متاثر ہوتا ہے بلکہ تعلیمی نظام پر سوال بھی اٹھتے ہیں۔
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ پالیسی اچانک لاگو کی گئی ہے، جس سے ہزاروں بچوں اور والدین کی منصوبہ بندی متاثر ہوئی ہے۔ کئی بچے جو آٹھویں جماعت مکمل کر چکے ہیں، اب عمر کی شرط کی وجہ سے روک دیے جائیں گے۔ ان بچوں کا ایک سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے، جس کا کوئی متبادل حل ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
والدین کی یہ بھی شکایت ہے کہ جب بچوں کو پرائمری سطح پر داخلہ دیتے وقت کسی عمر کی خاص پابندی پر زور نہیں دیا گیا، تو اب ثانوی سطح پر اچانک یہ رکاوٹ کیوں کھڑی کر دی گئی؟ کیا یہ فیصلہ دیر سے آیا یا اس پر پہلے سے واضح پالیسی بنائی جانی چاہیے تھی؟
اس تمام صورتحال میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمیں ایک سخت اور یکساں قانون چاہیے یا ایک لچکدار، فہمیدہ اور فرد کی صلاحیتوں پر مبنی پالیسی؟ ہر بچہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ بچے فطری طور پر جلد سیکھنے والے ہوتے ہیں، ان کے لیے ایک مخصوص عمر کا انتظار کرنا ان کی صلاحیتوں کو دبانے کے مترادف ہو سکتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم تعلیم کو محض ایک ضابطہ نہ سمجھیں بلکہ اسے ہر بچے کے لیے ایک ذاتی، منفرد اور پرورش دینے والا تجربہ بنائیں۔ عمر کی شرط اپنی جگہ، مگر اصل اہمیت بچے کی ذہنی، جذباتی اور سیکھنے کی صلاحیت کو دی جانی چاہیے۔ شاید یہی ہمارے نظامِ تعلیم کو زیادہ انصاف پسند، موثر اور ترقی یافتہ بنا سکتا ہے۔