150 بار رونا… صرف ایک گانے کے لیے — استاد نصرت کی آواز کا وہ لمحہ جو دلوں میں آج بھی گونجتا ہے”

یہ صرف ایک گانا نہیں، یہ احساس کا وہ دریا ہے جس میں استاد نصرت فتح علی خان کی روح نے ڈوب کر اپنا رنگ چھوڑا۔ “دُلہے کا سہرا سہانا لگتا ہے” محض ایک بولی وڈ فلم کا گیت نہیں، بلکہ وہ گیت ہے جسے ریکارڈ کرتے ہوئے دنیا کے عظیم ترین قوال نے 150 مرتبہ رو کر مکمل کیا۔ اور یہی آنسو، یہی سچائی، اس گانے کو آج تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔

معروف بھارتی نغمہ نگار سمیر انجان نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ اس گانے کی ریکارڈنگ کے دوران نصرت فتح علی خان بار بار زار و قطار روتے رہے، خاص طور پر جب وہ “میں تیری باہوں کے جھولے میں پلی، بابُل” کے جذباتی مصرعے تک پہنچتے۔ ہر بار وہ اپنی بیٹیوں کو یاد کرتے، اور ہر بار گانے کی ریکارڈنگ وہیں رک جاتی۔ لیکن وہی جذبہ، وہی پدرانہ محبت، بالآخر اُس کمالِ آواز میں ڈھل گئی جس نے اس گانے کو امر کر دیا۔

یہ گانا 2000 میں فلم “دھڑکن” میں ریلیز ہوا، جس میں شلپا شیٹی اور اکشے کمار کی شادی کا منظر دکھایا گیا۔ لیکن اصل منظر پسِ پردہ تھا، جہاں یہ گیت استاد کی زندگی کا آخری تحفہ بن کر ریکارڈ ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ بیماریوں سے لڑتے، جسمانی تکلیف کے باوجود فن کی خدمت میں جُتے رہے۔ اور یہی شاید ان کی زندگی کی سب سے بڑی مثال ہے — کہ فنکار جسم سے نہیں، دل سے گاتا ہے۔

اس گانے کی موسیقی ندیم شرون نے ترتیب دی، شاعری سمیر انجان نے لکھی، اور استاد نصرت نے گایا۔ لیکن اس گانے میں جو چیز سب سے زیادہ بولتی ہے، وہ استاد کے آنسو ہیں۔ اُن آنسوؤں کی صداقت، جس نے اس گانے کو صرف موسیقی نہیں، محبت، فراق اور قربانی کی ایک روح بخش دی۔

یہ لمحہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ موسیقی صرف ساز اور آواز کا کھیل نہیں، بلکہ روح کی گہرائیوں سے نکلنے والی ایک کیفیت ہے، جسے کوئی مشین نہیں، صرف ایک سچا دل ہی محسوس کر سکتا ہے۔

آج بھی جب یہ گانا شادیوں میں چلتا ہے، ہر باپ کی آنکھ نم ہو جاتی ہے، ہر بیٹی کی پلک بھیگ جاتی ہے، اور ہر دل استاد نصرت کے اس لمحے کو سلام پیش کرتا ہے۔ کیونکہ وہ 150 آنسو صرف ایک گانے کے نہیں تھے — وہ محبت، جدائی اور بے مثال فن کا آخری سچ تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں