ایک سپرے، ایک چیلنج، ایک زندگی: سارہ کی خاموش چیخ

آٹھ سال کی وہ ننھی سی جان، جس کی دنیا شاید ابھی گڑیوں، رنگوں اور کہانیوں تک محدود تھی، اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی ہے۔ سارہ رائسا، برازیل کے شہر برازیلیا کے ایک نواحی علاقے میں، اپنے نانا کے صوفے پر بے ہوش پائی گئی۔ اُس کے ہاتھ میں موبائل فون تھا، ساتھ ایک ڈیؤڈرنٹ کا اسپرے، اور اس کا تکیہ پوری طرح اسی اسپرے سے بھیگا ہوا۔ جب وہ ملی، تو اس کے ہونٹ اور انگلیاں جامنی ہو چکی تھیں۔ ڈاکٹروں نے تین دن تک لڑنے کی کوشش کی، لیکن 13 اپریل کو سارہ زندگی کی جنگ ہار گئی۔

یہ کہانی سننے میں شاید ایک افسوسناک حادثہ لگے، لیکن درحقیقت یہ ہماری اجتماعی غفلت کا نوحہ ہے۔ یہ ایک چپ چاپ بڑھتے ہوئے طوفان کی پہلی گرج ہے، جو سوشل میڈیا کے ان خاموش زہریلے رجحانات کے نتیجے میں ہمارے گھروں میں داخل ہو چکا ہے۔ وہ چیلنجز جو بظاہر “ٹرینڈنگ” ہوتے ہیں، لیکن جن کے پیچھے موت کھڑی مسکرا رہی ہوتی ہے۔

سارہ کی موت کا شبہ ایک ایسے “ڈیؤڈرنٹ چیلنج” پر ہے جس میں بچوں کو اپنی سانس روک کر اسپرے کو برداشت کرنے کے لیے اُکسایا جاتا ہے۔ وہ ویڈیوز، وہ ریلس، وہ ٹک ٹاک کلپس جو بچوں کو تفریح کا لالچ دے کر خطرے میں دھکیل دیتی ہیں، آج کسی کو بظاہر ایک لمحے کے لیے دلچسپ لگتی ہیں، لیکن کسی اور کے لیے وہ زندگی کی آخری سانس بن سکتی ہیں۔

سارہ کا والد کاسیو موریلیو صرف ایک غمزدہ باپ نہیں، بلکہ ہر اس والدین کی نمائندگی کر رہا ہے جو اپنے بچوں کو ایک بہتر، محفوظ دنیا دینا چاہتے ہیں۔ اس کا سوال سادہ مگر تکلیف دہ ہے: بچوں کے لیے کوئی حفاظتی دیوار کیوں نہیں؟ کیوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسی مواد کو روکنے کے مؤثر طریقے موجود نہیں؟ کیوں ایک آٹھ سالہ بچی کے لیے ایسی ویڈیوز باآسانی دستیاب ہیں؟

یہ سوال صرف سارہ کے گھر تک محدود نہیں۔ یہ سوال ہر اس گھر، ہر اس اسکول، ہر اس معاشرے سے ہے جہاں بچے سانس لے رہے ہیں، جہاں وہ موبائل فونز اور ٹیبلیٹس کے ساتھ کھیلتے ہیں، اور جہاں ہم سب نے ٹیکنالوجی کو زندگی کا لازمی حصہ مان لیا ہے، لیکن اس کے نقصانات پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

یہ صرف ایک چیلنج کی کہانی نہیں، یہ ایک عہد کا المیہ ہے۔ جہاں آزادی اظہار اور ڈیجیٹل ترقی کے پردے میں ہم نے بچوں کو ایسی دنیا میں چھوڑ دیا ہے جہاں ہر کلک، ہر ویڈیو، ایک نیا خطرہ بن سکتا ہے۔

اب وقت ہے کہ ہم صرف دکھ کا اظہار نہ کریں بلکہ خود کو، اپنے سسٹم کو اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو جوابدہ بنائیں۔ اب وقت ہے کہ ہم بچوں کو صرف موبائل نہ دیں، بلکہ شعور بھی دیں۔ صرف انٹرنیٹ تک رسائی نہ دیں، بلکہ رہنمائی بھی دیں۔

سارہ چلی گئی۔ شاید وہ سمجھ بھی نہ پائی ہو کہ اس نے کیا کیا۔ لیکن ہمیں سمجھنا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم نہ سمجھے، تو کل ایک اور سارہ، ایک اور اذان، ایک اور عائشہ — کسی اور کے صوفے پر بے ہوش پڑی ہو گی، اور ہم صرف افسوس ہی کر رہے ہوں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں