جب نیند بھی قیمت مانگے تو سمجھیں، غربت صرف فاقہ نہیں بلکہ وجود کی تذلیل بن چکی ہے۔

آتی ہیں، لیکن انہی گلیوں کے سائے میں ایک ایسی حقیقت بھی چھپی تھی جو انسانیت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس دور میں غربت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ ایک بے گھر شخص کو رات گزارنے کے لیے بھی پیسے ادا کرنے پڑتے تھے، اور نیند—a انسانی ضرورت—صرف ان کے لیے میسر تھی جو اس کی قیمت چکا سکتے تھے۔
سب سے سستا انتظام “چار پینی کا تابوت” کہلاتا تھا۔ یہ ایک لکڑی کا صندوق نما بستر تھا جس میں ایک شخص محض لیٹ سکتا تھا۔ اکثر اسے ایک ترپال سے ڈھانپ دیا جاتا تاکہ سردی یا بارش سے معمولی سا تحفظ حاصل ہو سکے۔ اس سادہ سے تابوت میں لیٹنا بھی اُس وقت ایک نعمت تصور کی جاتی تھی، کیونکہ بہت سے لوگ تو اس کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تھے۔
جن کے پاس چار پینی بھی نہ ہوتے، ان کے لیے “دو پینی کا ہینگ اوور” دستیاب تھا، جو سستے میں رات گزارنے کا ایک نہایت دردناک طریقہ تھا۔ اس میں ایک بینچ پر بیٹھا دیا جاتا اور ایک رسی شخص کے سینے کے گرد تانی جاتی تاکہ وہ بیٹھے بیٹھے سو جائے اور نیند کے دوران گر نہ جائے۔ یہ رسی اگلی صبح کھول دی جاتی، اور وہ شخص ایک اور دن کی جدوجہد کے لیے روانہ ہو جاتا۔ یہ ایک ایسا “آرام” تھا جو جسمانی نہیں، صرف مجبوری کا تسکین بخش حل تھا۔
یہ تاریک اور تکلیف دہ نیند کے بندوبست صرف وکٹورین غربت کی کہانی نہیں، بلکہ اُس وقت کی معاشرتی ناانصافی کا زندہ ثبوت تھے۔ لندن جیسا ترقی یافتہ شہر اپنے شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق—جیسے پناہ، سکون اور عزت نفس—فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ اُس وقت آرام بھی طبقاتی شناخت رکھتا تھا؛ امیر نرم گدوں پر سوتے تھے، اور غریب رسیوں سے بندھے ہوئے۔
آج جب ہم پُرآسائش زندگیوں میں ماضی کو یاد کرتے ہیں، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کہیں ہمارے شہروں کے کسی کونے میں آج بھی کوئی ایسا شخص تو نہیں جس کے لیے نیند بھی ایک مہنگی خواہش ہے۔ وکٹورین لندن کے یہ مناظر ہمیں صرف تاریخ نہیں سکھاتے، بلکہ ہمیں موجودہ دنیا کی غربت، بے گھری اور انسانی وقار کی قدر کرنے کا سبق بھی دیتے ہیں۔
ایسی کہانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ تہذیب صرف ظاہری ترقی سے نہیں، بلکہ اس بات سے ناپی جاتی ہے کہ ایک کمزور، بے گھر اور مجبور انسان کو اس معاشرے میں کتنی عزت، سکون اور حفاظت حاصل ہے۔