بجلی کی بچت یا عبادت میں مداخلت؟

کویت کی وزارتِ اوقاف و اسلامی امور نے مساجد میں بجلی کے بڑھتے ہوئے استعمال کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے، جن پر عوامی حلقوں میں ملا جلا ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ ان نئے ضوابط کے مطابق اب روزمرہ کی پانچوں نمازیں مساجد کے صحن میں ادا کی جائیں گی، جبکہ اندرونی ہالز صرف جمعہ کے دن کھولے جائیں گے، وہ بھی محدود ایئر کنڈیشننگ کے ساتھ۔

یہ فیصلہ وزارتِ بجلی، پانی و قابلِ تجدید توانائی کی درخواست پر کیا گیا ہے، جس کا مقصد توانائی کے نظام پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنا اور گرمیوں میں بجلی کی کمی کے خطرے سے نمٹنا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات وقتی ہیں اور موسم کی شدت کم ہوتے ہی ان پر نظرثانی کی جائے گی۔ مگر ان فیصلوں سے مسجد جانے والے افراد خصوصاً بزرگ، خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

خواتین کے لیے مخصوص نماز کے حصے بھی بند کیے جا رہے ہیں، سوائے اُن جگہوں کے جہاں دینی کلاسز یا لیکچرز ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان صورتوں میں بھی ایئر کنڈیشننگ صرف محدود درجہ حرارت پر اور سیشن کے بعد بند کر دی جائے گی۔ اذان اور اقامت کے درمیان وقفہ کم کرنا اور نماز کے دورانیے کو مختصر کرنا بھی ان احکامات کا حصہ ہے۔

بجلی کی بندش کا بھی ایک مخصوص شیڈول جاری کیا گیا ہے، جس کے تحت نمازوں کے درمیان بعض اوقات میں بجلی منقطع رہے گی، خاص طور پر ظہر اور عصر کے درمیان، اور عصر کے بعد شام 5 بجے تک۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ توانائی کا بحران عالمی سطح پر سنگین ہوتا جا رہا ہے، اور کویت جیسا ملک بھی اس چیلنج سے مبرا نہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا عبادت گاہیں — جہاں سکون، توجہ اور آرام کے لیے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے — ایسی جگہ ہیں جہاں توانائی کی بچت کے لیے سب سے پہلے کٹ لگانا چاہیے؟

اس فیصلے پر عوامی ردِعمل یقینی طور پر آنے والے دنوں میں واضح ہوگا۔ کچھ لوگ اسے ضروری اقدام سمجھیں گے تو کچھ اسے عبادت میں رکاوٹ گردانیں گے۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ عبادت اور سہولت کے درمیان توازن قائم رکھنا ہی دانشمندی ہے، کیونکہ دین آسانی کا درس دیتا ہے، نہ کہ سختی کا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں