“جب سب کچھ چوکیدار کے ہاتھ میں ہو، تو آئین اور قانون پسِ پشت چلے جاتے ہیں”

اسلام آباد میں استحکام پاکستان کانفرنس سے قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان کے جاندار خطاب نے ایک بار پھر ملک کے سیاسی اور آئینی بحران پر روشنی ڈال دی۔ اُنہوں نے علامہ راجہ ناصر عباس کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد دی اور طنزیہ انداز میں کہا کہ “رات کے اندھیروں میں جو جنات نازل ہوتے رہے، اُن کے لیے آپ نے جو تعویز رکھا، وہ مؤثر نکلا” — اس جملے میں انہوں نے طاقت کے ان غیر مرئی مراکز کی طرف اشارہ کیا جو پس پردہ سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
عمر ایوب نے کہا کہ اگر واقعی ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی، تو عمران خان، بشریٰ بی بی اور دیگر اپوزیشن رہنما آج جیل میں نہ ہوتے۔ اُنہوں نے عالیہ حمزہ اور صدام ترین کی گرفتاری کو بھی اسی غیرقانونی روش کا تسلسل قرار دیا، اور سوال اٹھایا کہ ایسے حالات میں ریاست کیسے استحکام حاصل کرے گی؟ اُن کا کہنا تھا کہ بغیر آئینی بالادستی اور شفاف نظام کے پاکستان کبھی بھی “ہارڈ سٹیٹ” نہیں بن سکتا۔
انہوں نے آزادی اظہار رائے پر قدغن، میڈیا کی سینسر شپ اور میڈیا مالکان کی ترجیحات پر بھی تنقید کی، کہتے ہیں کہ “سسٹم لگا ہے، فیڈ جا رہی ہوگی، مگر یہ پروگرام نشر نہیں ہو رہا ہوگا” — اس فقرے میں موجودہ میڈیا ماحول پر واضح طنز تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ ریاست کی اصل تعریف آئین کے آرٹیکل 7 میں ہے، جس کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ “سب کچھ چوکیدار کے ہاتھ میں ہے”، جس کا مطلب ہے کہ طاقت کے مراکز آئینی اداروں سے باہر ہیں۔
انہوں نے بلوچستان کے مسائل، بالخصوص مِسنگ پرسنز کے معاملے پر بھی کھل کر بات کی اور کہا کہ جب عوام اپنے وسائل اور حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو اُن پر “وفاداری” کے فتویٰ لگا دیے جاتے ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری اور آصف زرداری پر سندھ کا پانی بیچنے کا الزام بھی اُن کی تقریر کا حصہ بنا۔ انہوں نے ملک میں مہنگائی، پٹرول کی قیمتوں اور جعفر ایکسپریس حادثے کو سیکیورٹی اداروں کی ناکامی قرار دیا۔
خطاب کے اختتام پر انہوں نے فارم 47 کے تحت قائم حکومت کے مینڈیٹ کو چیلنج کیا اور بتایا کہ 12 مارچ کو سندھ کے پانی سے متعلق ایک اہم قرارداد جمع کرائی گئی تھی، جسے اسمبلی کے ریکارڈ سے ہی غائب کر دیا گیا — جو ایک سنگین سوالیہ نشان ہے کہ عوامی نمائندگی اور قانون سازی کے عمل کو کس حد تک دبایا جا رہا ہے۔
عمر ایوب کا یہ خطاب نہ صرف ایک سیاسی بیان تھا بلکہ آئین، قانون، عدل اور شفافیت کے حق میں ایک مضبوط مؤقف کی نمائندگی کرتا تھا، جس نے موجودہ سیاسی منظرنامے میں بہت سے سوالات کو جنم دے دیا ہے۔