آزادی کے صرف چار ماہ بعد، شام کے عوام ایک بار پھر جبر اور انتہاپسندی کے سائے میں سانس لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

شام کے ان علاقوں میں جہاں بشار الاسد کی حکومت سے ’آزادی‘ حاصل کیے ہوئے صرف چار ماہ ہوئے ہیں، وہاں حالات اب بھی غیر یقینی اور پیچیدہ ہیں۔ ابتدائی طور پر کچھ سماجی آزادیوں کا چرچا ضرور ہوا — جیسے خواتین کے لباس پر نرمی، مقامی میڈیا کی جزوی بحالی، اور لوگوں کے کھل کر اظہارِ رائے کی کوششیں — لیکن ان سب کے پیچھے ایک بڑا سوالیہ نشان ابھرتا جا رہا ہے: کیا یہ تبدیلیاں دیرپا ہوں گی یا صرف وقتی ریلیف ہے؟

نئی مقامی حکومت، جو بظاہر بشار حکومت کے جبر سے نجات دہندہ کے طور پر سامنے آئی تھی، اب خود سخت اسلامی قوانین کے نفاذ کے حوالے سے تنقید کی زد میں ہے۔ مقامی باشندوں اور مبصرین کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ سیاسی آزادی کے بدلے مذہبی قدغنیں تھوپی جا رہی ہیں۔ کچھ حلقے اس تبدیلی کو “دوسرے جبر کی شروعات” قرار دے رہے ہیں — ایک ایسا جبر جو اب بندوق کے بجائے شریعت کے نام پر لاگو ہو رہا ہے۔

اگرچہ ابھی تک کوئی باقاعدہ شرعی نظام مکمل طور پر نافذ نہیں ہوا، لیکن جگہ جگہ مختلف گروہوں کی جانب سے پابندیوں اور اخلاقی نگرانی کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ خواتین کو عبایا پہننے پر مجبور کیا گیا ہے، تو کہیں موسیقی اور ثقافتی تقریبات پر خاموشی سے قدغن لگنے لگی ہے۔ یہ تمام علامتیں اس خدشے کو تقویت دیتی ہیں کہ نئی حکومت شاید پرانی حکومت سے مختلف انداز میں، مگر ویسی ہی سخت گیر پالیسیوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔

یہ صورتحال اس خطے کے عوام کے لیے ایک نفسیاتی کشمکش کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ وہ لوگ جو برسوں کی خانہ جنگی، جبر، اور استبداد سے نکلے تھے، اب ایک بار پھر کسی نئی انتہاپسندی یا سخت گیر حکمرانی کے سایے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔

چار مہینے بعد کی یہ “آزادی” فی الحال ایک نازک توازن پر کھڑی ہے — جہاں امید بھی ہے اور اندیشہ بھی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ توازن کس طرف جھکے گا: حقیقی جمہوریت اور سماجی آزادی کی طرف؟ یا ایک نئے نظریاتی بندوبست کی طرف جو شخصی آزادیوں کو محدود کر دے گا؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں