روس اور یوکرین کے درمیان ایسٹر سیزفائر کے خاتمے کے چند گھنٹے بعد ہی دوبارہ ڈرون حملے شروع—کیا امن کی امید پھر ماند پڑ گئی؟

پیوٹن نے یوکرین سے عارضی طور پر جنگ بندی کا اعلان کردیا

روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں ایک مختصر وقفہ اس وقت آیا جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایسٹر کے موقع پر 30 گھنٹوں کی جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کو دنیا بھر میں ایک امید کے طور پر دیکھا گیا کہ شاید دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی میں کچھ نرمی آئے گی۔ لیکن یہ امید زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی، کیونکہ سیزفائر ختم ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد یوکرین کے مختلف علاقوں میں روسی ڈرون حملے شروع ہو گئے۔

یوکرین کی فضائیہ نے کیف سمیت کئی اہم علاقوں میں فضائی حملے کا الرٹ جاری کیا۔ جنوبی شہر میکولائیف میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، تاہم فوری طور پر کسی جانی نقصان کی تصدیق نہیں ہوئی۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ فضائی دفاعی نظام نے کچھ حملے ناکام بھی بنائے، لیکن یہ واضح نہیں کہ تمام خطرات کو مکمل طور پر روکا جا سکا یا نہیں۔

روس کی جانب سے ان حملوں کے حوالے سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، اور نہ ہی یہ واضح ہوا کہ حملے ریاست کی سطح پر کیے گئے یا انفرادی کارروائیاں تھیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر سیزفائر کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کر رہے ہیں، جس سے حالات مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔

سیزفائر کے اختتام سے قبل ہی یہ واضح ہو چکا تھا کہ روس کی طرف سے اس میں توسیع کا کوئی ارادہ نہیں۔ صدر پیوٹن کی ترجمانی کرتے ہوئے کریملن کے ترجمان نے بتایا کہ سیزفائر صرف طے شدہ وقت کے لیے تھا اور اس میں اضافے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔ یہ بیان اس امید کو ختم کر گیا جو کچھ دیر کے لیے قائم ہوئی تھی کہ شاید یہ وقفہ ایک بڑے امن معاہدے کا پیش خیمہ بنے۔

ادھر امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امید ظاہر کی کہ شاید روس اور یوکرین اس ہفتے کوئی معاہدہ کر لیں، مگر انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دیں۔ ان کا یہ بیان بظاہر مثبت ہے، لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اسے حقیقت سے دور خیال کیا جا رہا ہے۔

روس 2022 کے آغاز میں یوکرین پر مکمل حملے کے بعد اب تک یوکرین کے تقریباً 20 فیصد علاقے پر قابض ہے، جن میں کریمیا بھی شامل ہے جو 2014 میں غیر قانونی طور پر ضم کیا گیا تھا۔ اس جنگ میں لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں اور ایک بڑی انسانی تباہی جنم لے چکی ہے۔

ایسٹر سیزفائر کے بعد ہونے والے تازہ حملے اس بات کی یاددہانی ہیں کہ امن کی طرف سفر اب بھی طویل اور کٹھن ہے۔ عارضی سیزفائرز اور بین الاقوامی بیانات اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتے جب تک دونوں فریقین سنجیدگی سے جنگ بندی اور مذاکرات کی میز پر نہ آئیں۔ دنیا ایک مستقل اور پائیدار امن کی منتظر ہے، اور ہر گزرنے والا دن اس ضرورت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں