“لہو کے نام پر کاروبار؟ غزہ کے نام پر ڈیڑھ سو ارب کا سوالیہ نشان!

جیسے خدشہ تھا، ویسا ہی انکشاف بھی سامنے آ گیا۔ غزہ کے محاذ پر کام کرنے والے ایک فلسطینی صحافی نے برملا تسلیم کیا ہے کہ پاکستان سے کسی قسم کی امداد غزہ نہیں پہنچی۔ یعنی نہ دوا، نہ غذا، نہ کوئی مالی یا مادی مدد۔ یہ انکشاف صرف افسوسناک نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ پاکستان میں “غزہ کے مظلوموں” کے نام پر ایک محتاط اندازے کے مطابق 150 ارب روپے جمع کیے جا چکے ہیں۔

یہ وہ لمحہ ہے جہاں ہمیں اپنے جذبات، اپنی خیرات اور اپنے یقین کا محاسبہ کرنا ہو گا۔ کس نے ان مظلوموں کے نام پر ہمیں جھنجھوڑا؟ کس نے مذہب، انسانیت اور ہمدردی کی آڑ میں عوام کا اعتماد خریدا؟ اور وہ 150 ارب روپے کہاں گئے؟ جواب ابھی دھند میں ہے، لیکن اشارے واضح ہیں—نئی گاڑیاں، شاندار مراکز، مہنگے دفاتر اور بڑھتی ہوئی تنظیمی شان و شوکت۔

اب تو کچھ حلقے رسیدیں، بلر کیے چہرے اور رومال اوڑھے شکریہ کی تصویریں لگا کر سچائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن سوال وہی ہے: اگر یہ پیسہ غزہ نہیں گیا، تو گیا کہاں؟ اگر یہ دکھ، درد اور لاشیں صرف ایک فنڈ ریزنگ مہم کا ذریعہ تھیں، تو ہم بھی اُنھی “گِدھوں” کی صف میں شامل ہو چکے ہیں جو لاشوں پر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ جذباتی دھوکے سے نکل کر ہوش مندی سے سوال کیا جائے، مانگا جائے، اور اگر ضرورت ہو تو جوابدہی کا آغاز کیا جائے۔ کیونکہ اگر اب بھی نہ جاگے، تو کل پھر کسی اور غم کے نام پر ہمیں ہی لوٹا جائے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں