افغان مہاجرین کی واپسی صرف ایک سیاسی فیصلہ نہیں — اس کے اثرات پاکستانی معیشت کے کئی اہم شعبوں پر پڑ سکتے ہیں۔

افغان باشندوں کی واپسی کا عمل اب صرف ایک سیاسی یا انتظامی فیصلہ نہیں رہا، بلکہ یہ پاکستانی معاشرے اور معیشت کے کئی پہلوؤں پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ دہائیوں سے ملک کے مختلف حصوں میں مقیم افغان شہری نہ صرف یہاں کی لیبر مارکیٹ کا ایک لازمی جزو بن چکے تھے بلکہ روزمرہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ان کی موجودگی محسوس کی جاتی رہی ہے۔

تعمیرات سے لے کر زراعت، چھوٹے کاروبار سے سروس سیکٹر تک، افغان محنت کشوں نے ان شعبوں میں کام کر کے پاکستان کی معاشی سرگرمیوں میں حصہ ڈالا۔ اب جب کہ ان کی واپسی کا عمل تیز ہو چکا ہے، یہ خلا فوری طور پر پُر ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ مقامی مزدوری مہنگی ہے اور تربیت یافتہ افرادی قوت ہر جگہ دستیاب نہیں، جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

شہروں میں چھوٹے کاروباروں، بازاروں اور خدمات فراہم کرنے والے شعبوں میں افغان باشندوں کی گہری جڑیں رہی ہیں۔ ان کی غیر موجودگی سے نہ صرف کاروباری سرگرمیوں میں کمی کا خدشہ ہے بلکہ روزمرہ سہولیات کی فراہمی پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں، جہاں افغان کمیونٹیز کئی نسلوں سے مقیم تھیں، وہاں سماجی ہم آہنگی میں بھی تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔

افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل مقامی معیشت کے ان گوشوں کو بے نقاب کر رہا ہے جنہیں طویل عرصے تک نظر انداز کیا جاتا رہا۔ یہ صورتحال نہ صرف پالیسی سازوں کے لیے ایک چیلنج ہے بلکہ یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ غیر رسمی شعبے میں کس قدر انحصار بیرونی محنت پر رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے متبادل منصوبہ بندی کی جائے، ورنہ اس کے اثرات دیرپا ہو سکتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں