نئی نہریں صرف اتفاق رائے سے — وفاق اور صوبوں میں نیا پانی کا سمجھوتہ

وزیراعظم شہباز شریف نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ایک اہم اعلان کیا ہے: اب ملک میں کوئی نئی نہر صرف باہمی رضامندی کے بعد ہی تعمیر ہوگی۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب بھارت کی جانب سے پانی کی تقسیم پر حالیہ اقدامات نے پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کے اعلانات اور ان کے ممکنہ اثرات پر تفصیلی بریفنگ بلاول بھٹو کو دی گئی، جس کے بعد تمام فریقین اس بات پر متفق ہوئے کہ جب تک مشترکہ مفادات کونسل میں مکمل اتفاق نہ ہو، کسی نئی نہر کی منظوری نہیں دی جائے گی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا:

“مزید کوئی پیش رفت صوبوں کے درمیان اتفاق رائے کے بغیر نہیں ہوگی۔”

یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو پانی جیسے حساس اور متنازعہ معاملے پر صوبائی ہم آہنگی کو فروغ دے گا۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 2 مئی کو بلایا جا رہا ہے، جہاں اس فیصلے کی باضابطہ تائید کی جائے گی۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا:

“وزیراعظم نے ہمارے تحفظات سنے، اور اتفاق رائے کی بنیاد پر فیصلے کیے۔ اب عوامی شکایات کو دور کرنا آسان ہوگا۔”

انہوں نے کالاباغ ڈیم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی تین صوبے اعتراض کر چکے ہیں، اس لیے اب صرف وہی اقدامات کیے جائیں گے جن پر سب کا اتفاق ہو۔

یہ پیش رفت اس بات کی علامت ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان باہمی مشاورت کے بغیر کوئی آبی منصوبہ آگے نہیں بڑھایا جائے گا — اور یہ، سیاسی اور ماحولیاتی استحکام کے لیے ایک خوش آئند قدم ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں