“دنیا کا سب سے سست رفتار سائنسی تجربہ: پچ ڈراپ ایکسپیریمنٹ”

1927 میں، آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کوئنزلینڈ کے فزکس پروفیسر تھامس پارنیل نے ایک منفرد تجربہ شروع کیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ کچھ مادے جو بظاہر ٹھوس نظر آتے ہیں، درحقیقت انتہائی گاڑھے مائع ہوتے ہیں۔ انہوں نے پچ (Pitch)، ایک تار جیسا مادہ، کو گرم کر کے ایک سیل شدہ شیشے کے قیف میں ڈالا اور تین سال تک اسے بیٹھنے دیا۔ 1930 میں قیف کا نچلا حصہ کاٹ کر “پچ ڈراپ ایکسپیریمنٹ” کا آغاز کیا گیا۔
تب سے اب تک پچ انتہائی آہستگی سے ٹپک رہی ہے، اور ہر قطرے کو گرنے میں تقریباً دس سے تیرہ سال لگتے ہیں۔ اب تک نو قطرے ریکارڈ کیے جا چکے ہیں، جن میں سے تازہ ترین اپریل 2014 میں گرا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2000 میں گرنے والا آٹھواں قطرہ ویڈیو کیمرے کی خرابی کے باعث ریکارڈ نہیں ہو سکا، لیکن 2014 میں گرنے والے نویں قطرے کو پہلی بار کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیا۔
یہ تجربہ گنیز ورلڈ ریکارڈز میں “دنیا کا سب سے طویل مدتی لیبارٹری تجربہ” کے طور پر درج ہے۔ اس تجربے کی نگرانی پہلے پروفیسر جان مین اسٹون کرتے تھے، جو 2013 میں انتقال کر گئے۔ ان کے بعد پروفیسر اینڈریو وائٹ نے اس کی نگرانی سنبھالی۔
پچ ڈراپ ایکسپیریمنٹ نہ صرف سائنسی تجسس کا مظہر ہے بلکہ یہ ہمیں مادے کی فطرت اور وقت کے پیمانوں پر غور کرنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ یہ تجربہ آج بھی جاری ہے اور یونیورسٹی آف کوئنزلینڈ میں عوامی نمائش کے لیے دستیاب ہے۔