“جب خاموشی بول پڑی: فرانسیسی اسمبلی میں ابوبکر سیس کے لیے ایک منٹ کا احترام”

جنوبی فرانس کی ایک مسجد میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے نے نہ صرف مقامی برادری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ پورے فرانس کو ایک لمحے کے لیے خاموش کر دیا۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے چاقو کے حملے میں 22 سالہ مسلم نوجوان، ابوبکر سیس، کو شہید کر دیا گیا۔ اس دلخراش واقعے کے بعد فرانسیسی نیشنل اسمبلی میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، جسے مذہبی رواداری اور انسانیت کے احترام کی علامت کے طور پر سراہا جا رہا ہے۔
ابوبکر سیس، جو مقامی مسجد کا باقاعدہ نمازی اور کمیونٹی میں ایک پرامن نوجوان کے طور پر جانا جاتا تھا، جمعہ کی نماز کے بعد مسجد کے باہر چاقو بردار حملہ آور کا نشانہ بن گیا۔ حملہ آور کی شناخت جاری ہے، جبکہ پولیس نے واقعے کو نفرت پر مبنی جرم کے طور پر دیکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
فرانسیسی وزیر داخلہ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ “یہ صرف ایک فرد پر حملہ نہیں، بلکہ فرانس کی اقدار پر حملہ ہے۔” وہیں، اپوزیشن اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسلاموفوبیا کے بڑھتے واقعات کے خلاف فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
ابوبکر سیس کی یاد میں ملک بھر میں تعزیتی اجتماعات، دعائیہ تقاریب اور یکجہتی کے مظاہرے جاری ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ہیش ٹیگ #JusticeForAboubakar سیس نے زور پکڑ لیا ہے، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ فرانس میں اقلیتوں کے لیے انصاف اور تحفظ کا مطالبہ کتنا طاقتور ہو چکا ہے۔
یہ واقعہ صرف ایک نوجوان کی موت نہیں، بلکہ ایک پوری نسل کے سوال کا جواب طلب کرتا ہے: کیا فرانس اپنے تمام شہریوں کے لیے واقعی ایک محفوظ اور مساوی معاشرہ ہے؟