مہنگائی اور موسمیاتی تبدیلی کے دوہرے دباؤ میں پاکستانی زراعت: چیلنجز اور ممکنہ حل

پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھی جانے والی زراعت آج شدید دباؤ کا شکار ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، کھاد، بیج اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، اور ساتھ ہی موسمیاتی تبدیلی کے باعث غیر متوقع بارشیں، سیلاب، یا طویل خشک سالی نے کاشتکار کو بے حال کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف کسان مہنگے وسائل کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے، وہیں دوسری طرف فصلوں کی پیداوار اور معیار میں بھی واضح کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں کھاد کی قیمتیں دگنی ہو چکی ہیں، جبکہ ڈیزل، زرعی مشینری اور آبپاشی کے اخراجات بھی کسان کی برداشت سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گلوبل وارمنگ اور غیر متوقع موسمی پیٹرن فصلوں کی کاشت کے روایتی کیلنڈر کو متاثر کر رہے ہیں۔ کبھی وقت سے پہلے بارش آ جاتی ہے، تو کبھی طویل خشک موسم فصلوں کو تباہ کر دیتا ہے۔

سرکاری سطح پر سبسڈی کا نظام ناقص اور غیر مؤثر ہے، اور اکثر چھوٹے کسانوں تک بروقت امداد نہیں پہنچ پاتی۔ کسان کریڈٹ اسکیمیں بھی بیوروکریسی کی پیچیدگیوں اور بینکوں کی سخت شرائط کے باعث عام کاشتکار کے لیے کارگر ثابت نہیں ہو رہیں۔

اس سنگین صورتحال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت نہ صرف زرعی مداخل کی قیمتوں کو کنٹرول کرے، بلکہ کسان دوست پالیسیاں متعارف کرائے۔ زرعی تحقیقی اداروں کو فعال بنایا جائے تاکہ مقامی حالات کے مطابق موسمیاتی مزاحم فصلیں تیار کی جا سکیں۔ پانی کے مؤثر استعمال کے لیے جدید ٹیکنالوجی متعارف کرانا، اور کسانوں کو تربیت فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اگر فوری اور دیرپا اقدامات نہ کیے گئے تو زراعت میں بحران نہ صرف خوراک کی قلت کو جنم دے گا، بلکہ دیہی معیشت اور لاکھوں خاندانوں کے روزگار کو بھی شدید خطرات لاحق ہوں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں