جب پہلگام حملے کی خفیہ رپورٹ دبی رہ گئی، تو نریندر مودی پر سوالات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔

مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں حالیہ دہشت گرد حملے کے بعد بھارتی سیاست ایک بار پھر ہنگامہ خیز رخ اختیار کر گئی ہے۔ بھارتی کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے وزیراعظم نریندر مودی پر سنگین الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی کو اس حملے سے متعلق خفیہ اطلاعات پہلے ہی موصول ہو چکی تھیں، مگر انہوں نے یہ معلومات سیکیورٹی فورسز سے چھپائیں۔ ان کے مطابق مودی نے خود تو ان اطلاعات کی بنیاد پر اپنا کشمیر کا دورہ منسوخ کر دیا، مگر نہ ہی پولیس کو خبردار کیا اور نہ ہی سیاحوں یا مقامی شہریوں کے تحفظ کے لیے کوئی غیر معمولی اقدام اٹھایا گیا۔
ملک ارجن کھڑگے نے ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ مودی کو تین دن پہلے موصول ہو چکی تھی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں پہلگام میں ممکنہ دہشتگردی کا علم تھا۔ تاہم، انہوں نے نہ صرف خود پیچھے ہٹ کر احتیاط برتی بلکہ اپنے فرض منصبی سے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو بھی اندھیرے میں رکھا۔ کھڑگے کے اس بیان نے بھارتی سیاسی منظرنامے میں زبردست ارتعاش پیدا کر دیا ہے، جہاں حزب اختلاف اب مودی سرکار کو دفاعی پوزیشن میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس بیان پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان سی آر کیسابن نے سخت ردعمل دیا، اور کھڑگے پر ’میر جعفر‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے انہیں جھوٹا، زہریلا اور ملک دشمن قرار دیا۔ انہوں نے کھڑگے سے ثبوت پیش کرنے یا پھر بلا شرط معافی مانگنے کا مطالبہ کیا، بصورت دیگر ان کے خلاف سخت عوامی اور سیاسی کارروائی کی دھمکی دی۔
تاہم، سوال یہ ہے کہ اگر واقعی خفیہ معلومات کا تبادلہ نہ کیا گیا، تو کیا یہ سیکیورٹی میں غفلت نہیں؟ کیا ایک منتخب وزیراعظم اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت جان بوجھ کر عوامی جان و مال کو خطرے میں ڈال سکتا ہے؟ یا یہ محض انتخابی ماحول میں ایک سیاسی چال ہے؟ کانگریس کا الزام اور بی جے پی کا سخت ردعمل اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ پہلگام حملے کا معاملہ اب محض سیکیورٹی یا خفیہ رپورٹس تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ بھارت کی سیاسی اخلاقیات اور قیادت پر ایک براہ راست سوال بن چکا ہے۔
آنے والے دنوں میں یہ انکشافات محض سیاسی بیان بازی نہیں رہیں گے، بلکہ اگر ثبوت سامنے آ گئے تو نریندر مودی کو نہ صرف عوامی بلکہ عدالتی سطح پر بھی جوابدہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔