پارلیمنٹ یا اکھاڑا؟ قومی اسمبلی میں خواجہ آصف اور اسد قیصر کے درمیان شدید تصادم

قومی اسمبلی کا حالیہ اجلاس اس وقت ہنگامہ خیز ہوگیا جب وزیر دفاع خواجہ آصف اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و سابق اسپیکر اسد قیصر کے درمیان شدید لفظی تصادم ہوا۔ یہ واقعہ جافر ایکسپریس کے اغوا کے واقعے پر بحث کے دوران پیش آیا، جہاں دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کیے اور تلخ جملوں کا تبادلہ کیا۔
تصادم کی ابتدا: جافر ایکسپریس کا معاملہ
بحث کا آغاز جافر ایکسپریس کے اغوا کے واقعے پر ہوا، جہاں خواجہ آصف نے پی ٹی آئی پر سیکیورٹی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “تحریک انصاف کا مقصد صرف اور صرف ملکی اداروں کو بدنام کرنا اور ملک میں انتشار پھیلانا ہے۔”
اس بیان پر اسد قیصر نے بھرپور ردعمل دیتے ہوئے کہا، “یہ جعلی پارلیمنٹ ہے، جس میں عوام کی نمائندگی نہیں، بلکہ مخصوص ایجنڈے کے تحت عوامی مینڈیٹ کو کچلا گیا ہے۔” انہوں نے حکومت اور انٹیلی جنس اداروں کی ناکامیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور فوری انتخابات کا مطالبہ کیا۔
شخصی حملے اور تلخ جملوں کا تبادلہ
بحث اس وقت شدت اختیار کر گئی جب اسد قیصر نے خواجہ آصف کو “میسنا” قرار دیا اور انہیں بدعنوانی کے الزامات یاد دلائے۔ جواب میں خواجہ آصف نے پی ٹی آئی کی قیادت اور اسد قیصر کی سیاسی حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے کہا، “یہ وہ لوگ ہیں جو اقتدار کے لیے ملکی سلامتی کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔”
دیگر اراکین کی مداخلت اور ایوان کی صورتحال
دونوں رہنماؤں کی تلخ کلامی کے باعث ایوان کا ماحول انتہائی کشیدہ ہوگیا، اور دیگر اراکین نے مداخلت کرنے کی کوشش کی، لیکن صورتحال قابو میں نہ آ سکی۔ اسپیکر نے بارہا دونوں رہنماؤں کو تحمل اختیار کرنے کی تلقین کی، مگر تلخی برقرار رہی۔
سیاسی کشیدگی کی عکاسی یا جمہوریت کی بے بسی؟
یہ واقعہ قومی اسمبلی میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی اور عدم برداشت کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ ایوان جو قوم کی تقدیر کے فیصلے کرتا ہے، اب سیاسی مخالفین کے لیے ایک اکھاڑا بن چکا ہے، جہاں ذاتی حملے اور الزامات جمہوری بحث کی جگہ لے چکے ہیں۔
کیا یہ رویہ عوامی نمائندگی کی عکاسی کرتا ہے؟
عوام یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ان کے منتخب نمائندے قومی مسائل حل کرنے کے لیے ایوان میں موجود ہیں یا ایک دوسرے پر الزام تراشی کے لیے؟
جمہوریت کا حسن اختلافِ رائے میں ہے، لیکن جب یہ اختلاف ذاتیات اور توہین میں بدل جائے تو یہ جمہوریت کی روح کو مجروح کرتا ہے۔