چین نے بھارت کی نیندیں اُڑا دیں، اروناچل پردیش کے درجنوں علاقوں کو چینی نام دے کر ملکیت کا دعویٰ۔

چین اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی ایک بار پھر شدت اختیار کر گئی ہے، جب چین نے بھارت کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے درجنوں علاقوں کو چینی نام دے کر اپنی ملکیت کا اعلان کر دیا۔ چینی وزارت خارجہ نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقے چین کے تاریخی حصے “زنگنان” (جنوبی تبت) کا حصہ ہیں اور انہیں چین کا قانونی حق حاصل ہے۔
**چین کا مؤقف:**
* چین کا دعویٰ ہے کہ اروناچل پردیش تاریخی طور پر تبت کا حصہ رہا ہے۔
* 1914 میں برطانوی راج کے دوران قائم کی گئی “میک موہن لائن” کو چین نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔
* چین نے اب تک مجموعی طور پر 89 مقامات کو چینی نام دے کر اپنی ملکیت کا اشارہ دیا ہے۔
* چینی ماہرین کے مطابق، یہ “نرم قبضے” کی حکمت عملی ہے، جس کا مقصد ان علاقوں پر اپنا دعویٰ مضبوط کرنا ہے۔
**بھارت کا ردعمل:**
بھارت نے چین کے اس اقدام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اروناچل پردیش بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور چین کا اس پر کوئی قانونی یا تاریخی حق نہیں۔ نئی دہلی نے چین کی “ناموں کی سیاست” کو ایک خطرناک اور اشتعال انگیز اقدام قرار دیا ہے۔
**تاریخی پس منظر:**
* چین اور بھارت کے درمیان 1962 کی جنگ میں بھی اروناچل پردیش اہم محاذ رہا۔
* چین نے اس جنگ کے دوران بھارت کے متعدد علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔
* بھارت اور چین کے درمیان اب بھی مشرقی لداخ اور اروناچل پردیش میں سرحدی تنازعات جاری ہیں۔
**عالمی ردعمل:**
* امریکہ اور یورپی یونین نے چین کے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔
* ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی یہ حکمت عملی صرف علامتی نہیں بلکہ جغرافیائی، سفارتی اور عسکری قبضے کی تیاری بھی ہو سکتی ہے۔
* چین کی یہ پالیسی بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں (سیون سسٹرز) میں علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا دے سکتی ہے۔
* اس تنازعے کا اثر کشمیر کی صورتحال پر بھی پڑ سکتا ہے، جہاں بھارت پہلے ہی بین الاقوامی دباؤ کا شکار ہے۔
* چین اگر ان علاقوں میں سڑکوں، پلوں اور فوجی چوکیوں کی تعمیر شروع کرتا ہے تو خطے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
چین کا اروناچل پردیش کے علاقوں کو چینی نام دینا جنوبی ایشیا میں جغرافیائی سیاست کو ایک نئے بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔ بھارت کے لیے یہ ایک سنگین چیلنج ہے، جس کا جواب دینے کے لیے اسے فوری اور مؤثر سفارتی اور عسکری حکمت عملی اپنانا ہوگی۔