آئی ایم ایف کی نئی شرائط نے پاکستان کی معیشت اور عوام کی زندگیوں پر سخت اثرات ڈالنے کا خدشہ بڑھا دیا ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے اپنے آٹھ ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی نئی شرائط عائد کی ہیں، جن میں حکومت کو مالی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے متعدد سخت اقدامات کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ گذشتہ دنوں آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک اور قسط کی صورت میں 1.2 ارب ڈالر کی رقم دی تھی، لیکن پروگرام کے تسلسل کے لیے نئی شرائط اور پرانی شرائط پر عمل درآمد لازمی قرار دیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کے نئے مالی سال کا بجٹ وقت پر تیار کر کے پارلیمان سے منظور کروانے، زرعی آمدن پر نئے ٹیکس نظام کا نفاذ، اور حکومتی اصلاحات کے لیے گورننس ایکشن پلان جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ، توانائی کے شعبے میں نرخوں کی سالانہ اور ششماہی بنیادوں پر نظرثانی، بجلی کے بلوں میں قرض کی ادائیگی کے سرچارج پر حد ختم کرنا اور خصوصی صنعتی زونز میں دی گئی مراعات ختم کرنے جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔

خصوصی طور پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندی کو ختم کرنے کی قانون سازی کا حکم دیا گیا ہے، جس سے مارکیٹ میں قیمتوں میں تبدیلی اور عام شہریوں کی روزمرہ زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ تمام شرائط نہ صرف حکومتی شعبوں بلکہ عام پاکستانیوں کے لیے بھی چیلنجز پیدا کریں گی، جن کا اثر مہنگائی، روزگار اور معیشت کی عمومی صورتحال پر پڑے گا۔

آئی ایم ایف کی یہ شرائط پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے مالی خسارے کو کم کرنے کی کوشش ہے، مگر اس کے ساتھ ہی یہ عوام پر معاشی دباؤ اور مشکلات بھی بڑھا سکتی ہیں۔ اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان شرائط کو سمجھداری سے نافذ کرے تاکہ ملک میں استحکام برقرار رہ سکے اور عوامی مسائل کم سے کم ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں