پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری نے انڈیا میں آزادی اظہار رائے کے مستقبل پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

انڈیا میں اشوکا یونیورسٹی کے اسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری نے ملک بھر میں ایک تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ سونی پت، ہریانہ پولیس نے انہیں اس وقت گرفتار کیا جب انہوں نے حالیہ انڈیا-پاکستان تنازعے کے دوران کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کی۔ یہ گرفتاری یوگیش نامی مقامی شہری کی شکایت پر عمل میں لائی گئی، جس میں پروفیسر پر ‘دو برادریوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے’ کا الزام لگایا گیا ہے۔
ان کی اہلیہ کے مطابق، پولیس اتوار کی صبح ساڑھے چھ بجے ان کے گھر پہنچی اور پروفیسر کو اپنے ساتھ لے گئی، جس پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ اشوکا یونیورسٹی کے طلبہ اور فیکلٹی ممبران سمیت مختلف طبقے ان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، اور انڈیا میں ’اشوکا یونیورسٹی‘ ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہو چکی ہے۔
ہریانہ ریاست کی خواتین کی کمیشن نے بھی پروفیسر علی خان کو سمن جاری کیا تھا، جس کے بعد ان کے خلاف مزید قانونی کارروائی کی گئی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی آزادی اظہار رائے کو دبانے کی کوشش ہے، جبکہ ان کے حامیوں کا موقف ہے کہ انہوں نے صرف اپنی رائے کا اظہار کیا تھا، جو ہر شہری کا حق ہے۔
یہ گرفتاری انڈیا میں سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی اور اختلافی آوازوں کو دبانے کے الزامات کو مزید تقویت دیتی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پروفیسر علی خان کی گرفتاری ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے، جس میں تعلیمی اور سماجی شخصیات کو ان کی آراء کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
“آزادیٔ اظہار یا قومی سلامتی؟ انڈین پروفیسر پاکستان مخالف سوشل میڈیا پوسٹس پر گرفتار!”