“مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر آتش فشاں کے دہانے پر—کیا اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا، اور امریکہ کا کردار کیا ہوگا؟”

اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی ایک نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ حالیہ رپورٹس اور انٹیلیجنس ذرائع کے مطابق، اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ حملے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے، جسے وہ اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

اس کشیدگی میں امریکہ کا کردار بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کھل کر فوجی کارروائی کی حمایت نہیں کر رہی، تاہم امریکہ اسرائیل کو انٹیلیجنس، ہتھیاروں اور سفارتی حمایت فراہم کر سکتا ہے۔ خطے میں امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی اور اسرائیلی افواج کی تربیت میں امریکی معاونت اس بات کی علامت ہے کہ اگر جنگ چھڑتی ہے، تو واشنگٹن مکمل طور پر غیر جانبدار نہیں رہ پائے گا۔

عالمی برادری اس ممکنہ حملے کو روکنے اور سفارتی حل تلاش کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے، لیکن دونوں ممالک کی سخت گیر پالیسیوں اور باہمی عدم اعتماد کے باعث امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔

اگر اسرائیل نے واقعی حملہ کیا، تو مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی جنگ چھڑ سکتی ہے، جس کے عالمی سطح پر سیاسی، معاشی اور سکیورٹی اثرات مرتب ہوں گے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ، عالمی منڈیوں میں بے یقینی، اور مہاجرین کی نئی لہر جیسے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کی یہ غیر یقینی صورتحال ایک عالمی بحران کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، جس میں صرف اسرائیل یا ایران ہی نہیں بلکہ دنیا کی بڑی طاقتیں بھی کھنچتی چلی جائیں گی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں