“پاکستان 400 ارب ڈالر جی ڈی پی کے کلب میں داخل، لیکن کیا عوام کو بھی اس ترقی کی خوشبو آئی؟”

پاکستان 400 ارب ڈالر کے جی ڈی پی والے ممالک کی فہرست میں شامل: کیا یہ معیشت کی بہتری کی نشانی ہے؟
پاکستان کی معیشت نے تاریخ میں پہلی بار 400 ارب ڈالر کی حد عبور کر لی ہے، جس کے بعد ملک دنیا کی اُن معیشتوں کی صف میں شامل ہو گیا ہے جن کا جی ڈی پی 400 سے 500 ارب ڈالر کے درمیان ہے — جیسے ملائیشیا، ایران، بنگلہ دیش اور ناروے۔
**AKD سیکیورٹیز** کے مطابق، موجودہ مالی سال میں پاکستان کی **مجموعی معاشی پیداوار (GDP)** کا حجم **411 ارب ڈالر** تک پہنچنے کی امید ہے، جب کہ **فی کس آمدنی بھی بلند ترین سطح پر** جا پہنچی ہے — 1824 امریکی ڈالر، یعنی تقریباً پانچ لاکھ روپے سالانہ۔
یہ سب کچھ پڑھنے میں شاندار لگتا ہے، لیکن گراف کے پیچھے کی حقیقت کچھ اور کہتی ہے:
* اہم فصلوں کی پیداوار میں واضح کمی: گندم، چاول، کپاس، گنا سب متاثر۔
* زراعت کمزور، لیکن **صنعت اور توانائی** کے شعبے جی ڈی پی کو سہارا دے رہے ہیں۔
* جی ڈی پی کی مجموعی **شرحِ نمو 2.68 فیصد** ہے، جو ترقی یافتہ معیشتوں سے کہیں کم ہے۔
### ❗ کیا یہ ترقی سب کے لیے ہے؟
ماہرین اقتصادیات کا ماننا ہے کہ:
* فی کس آمدنی بڑھنے کا مطلب **ہر شہری کی زندگی بہتر ہونا نہیں** ہے۔
* پاکستان میں معاشی طاقت چند ہاتھوں میں محدود ہے، جبکہ اکثریتی عوام مہنگائی اور بیروزگاری کا سامنا کر رہی ہے۔
* **انفارمل اکانومی** (غیر رسمی معیشت) جی ڈی پی میں شامل نہیں، جو پاکستان کا ایک بڑا حصہ ہے۔
### 🔍 تو کیا واقعی یہ خوشحالی ہے؟
اگرچہ عالمی سطح پر یہ معاشی کامیابی ہے، مگر عوام کے لیے یہ صرف **اعداد و شمار کا کھیل** ہے — جس میں نہ تنخواہ بڑھی، نہ مہنگائی کم ہوئی، نہ معیارِ زندگی بہتر ہوا۔
—
اگر آپ چاہیں تو میں اس مواد کو **ویڈیو اسکرپٹ، پریزنٹیشن، یا سوشل میڈیا تھریڈ** میں بھی تبدیل کر سکتا ہوں۔