بھارت اور پاکستان کے درمیان دریاؤں کے پانی کے تنازعے نے ایک بار پھر خطے میں کشیدگی کو بڑھا دیا ہے، جہاں دونوں ملکوں کے بیانات اور مذاکرات کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

نئی دہلی سے موصولہ خبروں کے مطابق، بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ایک عوامی اجتماع میں سخت الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان کو ان دریاؤں کا پانی نہیں ملے گا جن پر بھارت کے حقوق ہیں۔ یہ بیان خاص طور پر سندھ طاس معاہدے سے جڑا ہوا ہے، جو پاکستان کو بھارت سے نکلنے والے تین دریاؤں کا پانی فراہم کرتا ہے اور پاکستان کی 80 فیصد زراعت کے لیے اہم ہے۔ مودی نے واضح کیا کہ پاکستان کو ہر دہشت گرد حملے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی، جو اس کی فوج اور معیشت پر اثر انداز ہوگی۔

دوسری جانب پاکستان کے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا ہے کہ اسلام آباد بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے حوالے سے بات چیت کے لیے تیار ہے، تاہم بھارت کو اس دہائیوں پرانے معاہدے کی پاسداری کرنا ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت نے حال ہی میں پاکستان کو خط بھیجے ہیں جن میں آبادی میں اضافے اور صاف توانائی کی ضروریات کے پیش نظر معاہدے میں ترمیم کی درخواست کی گئی ہے، لیکن پاکستان کا موقف ہے کہ کوئی بھی بات چیت معاہدے کی شرائط کے تحت ہی ہونی چاہیے۔

منصور عثمان اعوان نے مزید کہا کہ سندھ طاس معاہدہ قانونی طور پر پابند ہے اور کوئی بھی فریق اسے یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے یہ معاہدہ مکمل طور پر فعال اور مؤثر ہے، اور بھارت جو کچھ بھی کرتا ہے وہ اپنے ہی نقصان اور خطرے پر کرتا ہے، خاص طور پر جب وہ پن بجلی کے منصوبے شروع کرتا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باوجود جنگ بندی بڑی حد تک قائم ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کہا ہے کہ فی الحال کوئی فائرنگ کا تبادلہ نہیں ہو رہا اور فوجی پوزیشنز میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی اور اگر دہشت گرد پاکستان میں ہیں تو بھارت انہیں وہاں نشانہ بنائے گا۔

یہ بیانات اور صورتحال خطے میں پانی کے تنازعے کے علاوہ دہشت گردی اور سیکورٹی کے مسائل پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ اور پانی کی تقسیم جیسے مسائل دونوں ممالک کے تعلقات میں حساس اور پیچیدہ کردار ادا کرتے ہیں، جنہیں مذاکرات اور دیپلومیسی کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں